جنوبی ایشیا کے لیے ٹرمپ کی حکمت عملی، امکانات کیا ہیں؟
19 اگست 2017امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ افغانستان اور جنوبی ایشیائی خطے سے متعلق ایک نئی پالیسی وضع کرنے کی کوشش میں ہے تاکہ اس خطے میں امریکی مفادات کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔ اس تناظر میں جمعے کے دن کیمپ ڈیوڈ میں صدر ٹرمپ نے اپنی نیشنل سکیورٹی ٹیم کے اعلیٰ ممبران سے ملاقات کی، جس میں افغان پالیسی کے مختلف پہلوؤں پر گفتگو کی گئی۔ ٹرمپ پہلے بھی اپنی اس ٹیم کے ساتھ ایسی متعدد ملاقاتیں کر چکے ہیں لیکن ابھی تک کسی منصوبے کو حتمی شکل نہیں دی گئی ہے۔
افغانستان کے لیے امریکی حکمتِ عملی ہے کیا؟
پاکستان سے متعلق ٹرمپ کی پالیسی: ’زیادہ ڈرون حملے زیر غور‘
افغانستان میں پچھلی غلطیاں نہیں دہرائیں گے، امریکی وزیر دفاع
وائٹ ہاؤس کی پریس سیکرٹری سارہ سینڈرز نے میڈیا کو بتایا ہے کہ جمعے کے دن کیمپ ڈیوڈ میں نیشنل سکیورٹی ٹیم نے صدر ٹرمپ سے ’جنوبی ایشیا میں امریکی مفادات کے تحفظ کے حوالے سے نئی پالیسی کے خدوخال بیان کیے‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ صدر ٹرمپ اس تناظر میں پیش کردہ امکانات پر غور کر رہے ہیں اور وہ مناسب وقت پر امریکی عوام، ساتھیوں اور اپنے اتحادی ممالک کو اس حوالے سے باخبر بھی کر دیں گے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز نے سفارتی ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ صدر ٹرمپ کے مشیر برائے قومی سلامتی ایچ آر مک ماسٹر اور ان کی ٹیم میں شامل دیگر اعلیٰ عہدیداروں نے افغانستان میں اضافی فوجی دستوں کی تعیناتی کا منصوبہ بنایا ہے۔
وسط جولائی میں ہوئی ایک میٹنگ میں انہوں نے صدر ٹرمپ سے درخواست کی تھی کہ وہ افغانستان میں مزید تین ہزار تا پانچ ہزار امریکی اور اتحادی ممالک کے فوجی تعینات کریں۔
اسٹیو بینن کی سرپرستی میں ’عالمگیریت کے مخالفین‘ نے صدر ٹرمپ پر زور دیا تھا کہ وہ افغانستان سے امریکی افواج واپس بلا لیں۔
تاہم جمعے کے دن ہی اسٹیو بینن کو ٹرمپ کے چیف اسٹریٹیجسٹ کے عہدے سے برطرف کر دیا گیا۔ یوں کئی حلقے اب خیال کر رہے ہیں کہ ٹرمپ کے اس قریبی رفیق کی وائٹ ہاؤس سے علیحدگی کے باعث ایسے امکانات کم ہی ہیں کہ ٹرمپ افغانستان سے اپنی افواج واپس بلا لینے پر بھی غور کریں گے۔
پاکستان کا ’نازک معاملہ‘
کیمپ ڈیوڈ میں ہونے والی ملاقات میں صدر ٹرمپ اور نیشنل سکیورٹی ٹیم نے اس حوالے سے بھی گفتگو کی کہ پاکستان کے خلاف سخت موقف اختیار کیا جائے۔ تاہم سفارتی ذرائع کے مطابق اس تناظر میں اختلافات برقرار رہے۔
افغانستان میں مزید امریکی فوجی قبول نہیں، حکمت یار
پاکستان کے تعاون کے بغیر خطے میں قیام امن ممکن نہیں، مک کین
طالبان سے مذاکرات کا امریکی مطالبہ اور پاکستان کی مشکلات
واشنگٹن کا اصرار ہے کہ اسلام آباد حکومت افغان سرحد سے متصل قبائلی علاقہ جات میں طالبان کی پناہ گاہوں کو ختم کرنے میں تیزی دکھائے۔ ایسے الزامات بھی عائد کیے جاتے ہیں کہ ان طالبان کو پاکستانی فوج کے کچھ عناصر کی طرف سے مدد بھی فراہم کی جاتی ہے۔ تاہم پاکستان ایسے الزامات کو مسترد کرتا ہے۔
امریکی صدر ٹرمپ کو ایک ایسا منصوبہ بھی پیش کیا گیا ہے جس میں زور دیا گیا کہ اگر پاکستان سینئر افغان طالبان، بالخصوص حقانی گروپ کے خلاف کارروائی نہیں کرتا تو اسے دہشت گردی کی معاونت کرنے والی ریاستوں کی فہرست میں ڈال دیے جانے پر غور کرنا چاہیے۔
پاکستان کو دہشت گردوں کی معاونت کرنے والے ممالک کی فہرست میں ڈال دینے کا مطلب یہ ہو گا کہ اسلام آباد حکومت پر سخت امریکی پابندیاں عائد کر دی جائیں گی جبکہ اسلحے کی فروخت بھی روک دی جائے گی۔ اس صورت میں پاکستان امریکی اقتصادی مدد سے بھی محروم ہو جائے گا۔
ناقدین کے مطابق افغانستان میں طالبان کو شکست دینے کے لیے ٹرمپ کے پاس آپشنز کم ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کسی منصوبے کو حتمی شکل دینے سے قبل تمام امکانات کا جائزہ لینا چاہتے ہیں۔
امریکی حکومت افغانستان میں طالبان کو شکست دینے کی خاطر ایک طرف تو عسکری آپشنز پر غور کر رہی ہے لیکن ساتھ ہی وہ پرامن مکالمت پر بھی زور دے رہی ہے۔ طالبان قیادت کے ساتھ بات چیت دراصل اسی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ مبصرین کے مطابق افغانستان میں قیام امن کی خاطر مذاکراتی عمل میں پاکستان کا کردار انتہائی اہم ثابت ہو سکتا ہے۔