جنوبی ایشیائی خطے سے متعلق امریکی پالیسی کا اعلان آج متوقع
21 اگست 2017آج قوم سے ایک اہم خطاب میں توقع ہے کہ ٹرمپ اپنے سینیئر مشیروں کی جانب سے سفارشات پر افغانستان میں امریکی فوجی دستوں کی تعداد میں معمولی اضافے کا اعلان کر سکتے ہیں۔ امریکی حکام کے مطابق جنوری میں آفس سنبھالنے کے فوراﹰ بعد ہی ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی حکمت عملی کا ازسر نو جائزہ لیتے ہوئے سوال کیا تھا کہ آیا افغانستان میں مزید امریکی فوجی بھیجنا عقلمندانہ اقدام ہو گا؟
ایک امریکی اہلکار نے بتایا ہے کہ جولائی کے وسط میں مشیروں کے ساتھ ہونے والی ایک میٹنگ میں ٹرمپ نے کہا تھا،’’ ہمیں کامیابی حاصل نہیں ہو رہی ہے۔‘‘ اس کے ساتھ ہی ٹرمپ نے یہ سوال بھی کیا تھا کہ کیا افغانستان میں تعینات اعلی ترین فوجی کمانڈر جنرل جان نکلسن کو بر طرف کر دینا چاہیے۔
امریکی صدر اپنے چوٹی کے قومی اور عسکری مشیروں کے ساتھ طویل بحث کے بعد افغانستان سے متعلق فوجی حکمت عملی کے معاملے پر جمعے کے روز کسی فیصلے پر پہنچے ہیں۔
اتوار بیس اگست کو وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ صدر ٹرمپ قوم سے خطاب میں افغانستان اور جنوبی ایشیا میں امریکی حکمت عملی کے حوالے سے تازہ ترین صورت حال سے آگاہ کریں گے۔
امریکی وزیر دفاع جیمس میٹِس نے گزشتہ روز کہا تھا کہ وہ امریکا کی نئی افغان پالیسی سے مطمئن ہیں تاہم انہوں نے اس کی تفصیلات بتانے سے یہ کہتے ہوئے گریز کیا تھا کہ اس کا اعلان صدر ٹرمپ خود کریں گے۔
افغانستان اور جنوبی ایشیائی خطے سے متعلق حکمت عملی وضع کرنے کے حوالے سے میٹنگ میں شریک دو امریکی حکام نے نام خفیہ رکھنے کی شرط پر خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ وائٹ ہاؤس کو فیصلہ لینے میں اتنا وقت اس لیے لگا کیونکہ ٹرمپ کے لیے ایک وسیع علاقائی حکمت عملی کی ضرورت کو تسلیم کرنا مشکل تھا۔ اس وسیع حکمت عملی میں امریکا کی پاکستان کے لیے پالیسی وضع کرنا بھی شامل ہے۔
جمعے کے روز کیمپ ڈیوڈ میں ہونے والی ملاقات میں صدر ٹرمپ اور نیشنل سکیورٹی ٹیم نے اس حوالے سے بھی گفتگو کی کہ پاکستان کے خلاف سخت موقف اختیار کیا جائے۔ تاہم سفارتی ذرائع کے مطابق اس تناظر میں اختلافات برقرار رہے۔
واشنگٹن کا اصرار ہے کہ اسلام آباد حکومت افغان سرحد سے متصل قبائلی علاقہ جات میں طالبان کی پناہ گاہوں کو ختم کرنے میں تیزی دکھائے۔ ایسے الزامات بھی عائد کیے جاتے ہیں کہ ان طالبان کو پاکستانی فوج کے کچھ عناصر کی طرف سے مدد بھی فراہم کی جاتی ہے۔ تاہم پاکستان ایسے الزامات کو مسترد کرتا ہے۔