جنوبی قطب پر موجود پینگوئنز کی زندگی خطرے میں
12 اپریل 2011محققین کی طرف سے جاری کی جانے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سمندری برف پگھلنے کے باعث وہاں موجود چھوٹے سائز کی مچھلی کی ایک خاص قسم نایاب ہوتی جارہی ہے۔ یہ مچھلی پینگوئنز کی خوراک ہے اور اس کی تعداد میں کمی کے باعث نوجوان پینگوئنز کی زندگی مشکل ہوتی جارہی ہے۔
امریکہ کی نیشنل اکیڈمی آف سائنسز میں پیش کی جانے والی رپورٹ کے مطابق ایسے بچے پینگوئنز جنہیں ماہرین نے خصوصی ٹیگ لگائے تھے ان کی محض 10 فیصد تعداد دو سے چار سال کے دوران انڈے دینے کے لیے واپس آئے۔ ماہرین کے مطابق 1970ء کے عشرے میں ایسے پینگوئنز کی تعداد 40 سے 50 فیصد تک تھی۔
’نیشنل اوشینک اینڈ ایٹماسفیرک ایڈمنسٹریشن‘ نامی ادارے کے ایکو سسٹم ریسرچ ڈویژن کے اعلیٰ محقق وین ٹِریولپیس Wayne Trivelpiece کے بقول یہ ایک ڈرامائی تبدیلی ہے: ’’ابھی بھی وہاں چِن اسٹریپ نسل کے ان پینگوئنز کے 20 سے 30 لاکھ جوڑے موجود ہیں، تاہم محض دو دہائی قبل ان کی تعداد 70 سے 80 لاکھ تھی۔
قطب جنوبی کے مغربی علاقے میں پائے جانے والی پینگوئنز کی دو مخصوص نسلوں ’چِن اسٹریپ‘ اور ’ایڈیلی‘ کے حوالے سے 30 برس پر مشتمل اس تحقیق میں ان نسلوں کی اہم خوراک کرِل نامی مچھلی کے بارے میں بھی تفصیلات اکٹھی کی گئیں۔ جھینگے کی طرح یہ چھوٹی مچھلی وہیل اور سمندری سیلز کے علاوہ ان پینگوئنز کی بھی خوراک ہے۔
وین ٹِریولپیس اور ان کے ساتھی محققین کو یقین ہے کہ پینگوئنز کی تیزی سے کم ہوتی ہوئی تعداد کی اصل وجہ ان کی خوراک یعنی کرِل مچھلی کی تعداد میں کمی ہے۔ کرِل کو زندہ رہنے کے لیے برفیلے پانی کی ضرورت ہوتی ہے اور موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے جیسے جیسے قطبین پر موجود برف پگھل رہی ہے، اس ننھی مچھلی کی تعداد بھی کم ہوتی جارہی ہے۔
رپورٹ : افسراعوان
ادارت : کِشور مُصطفیٰ