جنوبی وزیرستان میں طالبان کے خلاف پاکستانی فوجی آپریشن کا آغاز
17 اکتوبر 2009مختلف خبر رساں اداروں کی متفقہ رپورٹوں کے مطابق زمینی دستے افغانستان کی سرحد سے ملحقہ پاکستانی علاقے جنوبی وزیرستان کی جانب روانہ کر دئے گئے ہیں۔
بتایا گیا ہے کہ موسمِ سرما کے باقاعدہ آغاز سے پہلے پہلے اِس علاقے میں فوجیوں کی تعداد بڑھا کر ساٹھ ہزار تک کر دینے کا پروگرام بنایا گیا ہے۔ فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی سے باتیں کرتے ہوئے ایک فوجی افسر نے بتایا کہ اِس فوجی آپریشن کو برفباری شروع ہونے سے پہلے تکمیل تک پہنچانے کا پروگرام بنایا گیا ہے۔ پاکستانی وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اِس آپریشن کے آغاز کا باقاعدہ اعلان کرنے والے ہیں۔ متعلقہ خطے کے بیشتر علاقوں میں کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق اِن دستوں کو طالبان کی جانب سے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
پاکستانی فوج نے اِس سال جون میں ہی اِس زمینی آپریشن کا اعلان کیا تھا لیکن اب تک اُس کی کارروائیاں صرف فضائی بمباری تک ہی محدود چلی آ رہی تھیں۔ پاکستانی ذرائع ابلاغ کے مطابق یہ حملہ گذشتہ چند روز کے ہولناک دہشت گردانہ حملوں کا رد عمل ہے۔ گذرے بارہ دنوں کے دوران انتہا پسدوں کی طرف سے کئے جانے والے حملوں میں ایک سو ستر سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے۔ ان حملوں کا ذمہ دار جنوبی وزیرستان سے سرگرمِ عمل تحریکِ طالبان پاکستان کو قرار دیا جا رہا ہے۔
اِس حملے کے ڈر سے علاقے کے شہری گذشتہ کئی زوز سے گھر بار چھوڑ کر محفوظ پناہ گاہوں کا رُخ کر رہے ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق اب تک ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ افراد اِس علاقے سے نکل چکے ہیں۔
آج ہفتے کے روز شمالی وزیرستان میں پاکستانی فوج کے ایک قافلے پر حملے میں تین فوجی ہلاک ہو گئے۔ فوج کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ چار مزید فوجی اُس وقت زخمی ہو گئے، جب سڑک کے کنارے نصب کیا گیا ایک بم پھٹ گیا۔ اس قافلے نے اِس بم دھماکے سے کچھ ہی دیر پہلے شمالی وزیرستان میں واقع فوجی ہیڈکوارٹر رزمک سے اپنے سفر کا آغاز کیا تھا۔ اس حملے میں ایک گاڑی تباہ ہو گئی۔