جنوبی وزیرستان کے بےگھر افراد کی واپسی
11 اپریل 2016خیبرپختونخوا کی قبائلی پٹی سے بے گھر ہونے والے خاندان جب واپس جاتے ہیں تو ہر خاندان کے سربراہ کو ٹرانسپورٹ کے لیے دس ہزار جب کہ دیگر اخراجات کے لیے پچیس ہزار روپے دیے جاتے ہیں۔ واپسی کے اس سلسلے کو تین مختلف مراحل میں تقسیم کیا گیا ہے جس میں مجموعی طورپرتیس ہزار خاندان واپس اپنے علاقوں میں بیجھے جائیں گے ۔اس موقع پر سخت سیکورٹی کے اقدامات اٹھائے گئے تھے جبکہ جانیوالوں کیلئے مخصوص کیمپ بنایا گیا تھا جہاں سے اعلیٰ سرکاری حکام ائی ڈی پیز کو رخصت کرتے رہے۔
سیکورٹی اداروں نے جنوبی وزیر ستان میں چھپے عسکریت پسندوں کے خلاف اپریشن سے قبل ان لوگوں کو علاقہ خالی کرنے کا کہا تھا، جس کی وجہ سے لاکھوں قبائلی خاندان گھر بار چھوڑ کر خیبر پختونخوا کے مختلف اضلاع پہنچ گئے تھے۔جنوبی وزیر ستان سے بے گھر ہونیوالوں کی اکثریت نے خیبر پختونخوا کے ضلع ٹانک اور ڈیرہ اسماعیل خان میں پناہ لی تھی ۔
قدرتی افات سے نمٹنے والے وفاقی ادارے کے آپریشن افیسر عادل ظہور سے جب دوئچے ویلے نے رابطہ کیا تو انکا کہناتھا ’’واپس جانیوالوں کا تعلق جنوبی وزیر ستان کے مختلف دیہاتوں سے ہے یہ ان پچاس دیہاتوں کے لوگ ہیں جنہیں کلئیر کردیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ ایف ڈی ایم اے نے ان لوگوں کیلئے خیر گئی نامی علاقے میں ایک مرکز بنایا ہے جہاں ان لوگوں کو ٹرانسپورٹ کیلئے نقد رقم اور اے ٹی ایم کارڈ کے ذریعے دیگر اخراجات کیلئے پچیس ہزار روپے دیئے جاتے ہیں۔‘‘ انکا مزید کہنا تھا کہ اس مرحلے کے دوران دس ہزارخاندانوں کو واپس بیجھا جائے گا۔ جب ان سے علاقے میں بنیادی سہولیات کی فراہمی کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ جونہی یہ لوگ اپنے علاقے میں پہنچ جائیں وہاں انکی ضروریات کا جائزہ لیکر اسے پورا کرنے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر کا شروع کیا جائیگا۔
دوسری جانب واپس جانیوالے اس بات پر خوش تھے کہ وہ اپنے ابائی علاقے میں جارہے ہیں تاہم انہوں بعض خدشات کا اظہار بھی کیا ۔ واپس جانیوالے عصمت اللہ کا کہنا تھا ’’یہاں کے لوگوں کے مشکور ہیں یہاں ہم لوگوں نے چھ سال گزارے ہیں، اس دوران اپنے گاوں کی یاد ستاتی رہی۔ جب ان سے سہولیات کے بارے میں کہا تو انکا کہنا تھا کہ سہولیات تو یہاں بھی بہت ہی کم بلکہ نہ ہونے کے برابر تھیں لیکن ہمیں ڈر ہے کہ ہمارا گھر بار طویل جنگ کی وجہ سے برباد ہو چکا ہوگا جبکہ وہاں پانی ،صحت اور تعلیم کی سہولیات کا پہل بھی کمی تھی اور اب جنگ کے بعد مزید کم ہو سکتی ہے۔ عصمت اللہ کے مطابق یقین دلایا گیا ہے کہ صحت تعلیم اور پینے کیلئے صاف پانی کی فراہمی کے منصوبے فورا شروع کئے جائیں گے انکا کہنا تھا کہ جو کچھ حکومت دے رہی ہے یہ بہت کم ہے لیکن ہمارے پاس کوئی دوسرا راستہ بھی نہیں ہے۔
سیکورٹی فورسز نے سات سال قبل اپریشن راہ نجات کے نام سے قبائلی علاقے جنوبی وزیرستان میں موجود عسکریت پسندوں کے خلاف اپریشن کا اغاز کیا تھا۔ اس وقت جنوبی وزیر ستان کی متعدد علاقوں میں مقامی اور غیر ملکی عسکریت پسندوں کا راج تھا۔ پیر کے روز یہاں سے اپنے علاقے میں جانے والوں میں جنوبی وزیر ستان کے علاقہ لدھا،سرا روغہ،تیارزہ اور سروکئی سمیت کئی دیگر علاقوں کے لوگ شامل ہیں۔