جنوبی کوریائی صدر کے پارلیمانی مواخذے کی تحریک ناکام
7 دسمبر 2024جنوبی کوریائی دارالحکومت سیول سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق یہ ہفتہ جنوبی کوریا کی سیاست کے لیے بہت تہلکہ خیز رہا۔ پہلے صدر یون نے ملکی اپوزیشن پر سیاست اور پارلیمان کو جمود کو شکار بنا دینے کا الزام لگا کر ملک میں مارشل لاء نافذ کر دیا۔
پھر اس اقدام کے خلاف جب پارلیمان نے باقاعدہ ایک قرارداد منظور کر لی، تو محض چند ہی گھنٹے بعد صدر کو یہ اعلان کرنا پڑ گیا کہ وہ پارلیمان کے فیصلے کا احترام کرتے ہوئے مارشل لاء ختم کر دیں گے اور انہوں نے ایسا کیا بھی۔
جنوبی کوریا: وزیر دفاع مستعفیٰ اور صدر کے مواخذے کی کوشش
پھر صدر یون سک یول کے خلاف پارلیمان میں مواخذے کی قرارداد پیش کر دی گئی، جس کو اپوزیشن کی بھرپور تائید حاصل تھی اور عوام کا ایک بڑا حصہ بھی یہی مطالبہ کر رہا تھا کہ پارلیمان کو صدر یون کو ان کے عہدے سے ہٹا دینا چاہیے۔
پارلیمان میں ووٹنگ ہو ہی نہ سکی
آج ہفتہ سات دسمبر کی شام سیول کی پارلیمان میں صدارتی مواخذے کی تحریک پر رائے دہی ہونا تھی، لیکن حکمران جماعت نے اس کارروائی میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا اور اس کے ارکان کی بہت بڑی تعداد ایوان میں نہ پہنچی۔
اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ صدر یون سک یول مواخذے سے بچ گئے، جن کی طرف سے گزشتہ منگل کی رات ملک میں مارشل لاء کے نفاذ کا فیصلہ جنوبی کوریائی عوام کے ساتھ ساتھ پوری بین الاقوامی برادری کے لیے انتہائی حیران کن تھا۔
جنوبی کوریا میں ناکام مارشل لاء کے بعد اب کیا ہو گا؟
اپوزیشن کی طرف سے پیش کردہ مواخذے کی تحریک کی کامیابی کے لیے دو تہائی ارکان پارلیمان کی حمایت درکار تھی، لیکن یون کی جماعت پیپلز پاور پارٹی کے اراکین کی تقریباﹰ مکمل غیر حاضری اس قرارداد کے ووٹنگ کے بغیر ہی ناکام رہ جانے کی وجہ بنی۔
پارلیمانی اسپیکر کا اعلان
جنوبی کوریا کی قومی اسمبلی کے اسپیکر وو وون شیک نے دو تہائی اراکین کی موجودگی کی لازمی شرط پوری نہ ہونے پر ایوان میں کہا، ''ارکان کی دو تہائی اکثریت کی موجودگی اور کم از کم اتنی ہی حمایت کی لازمی شرط پوری نہ ہو سکی۔ نتیجہ یہ کہ مواخذے کا عمل غیر مؤثر (ناکام) ہو گیا۔‘‘
جنوبی کوریا: مارشل لاء کی افراتفری اور صدر سے استعفے کا مطالبہ
ساتھ ہی قومی اسمبلی کے اسپیکر نے کہا، ''پورے ملک اور ساری دنیا کی نظریں پارلیمان کی طرف لگی ہوئی تھیں۔ یہ بہت افسوس کی بات ہے کہ قومی اہمیت کے حامل اس معاملے پر ووٹنگ ہی نہ کرائی جا سکی۔‘‘
پارلیمانی اسپیکر نے حکمرن جماعت پر یہ الزام بھی لگایا کہ وہ اپنے بائیکاٹ کے ساتھ ''جہوری عمل میں اپنی شرکت کو یقینی بنانے میں ناکام رہی۔‘‘
حکمران پارٹی کا موقف
صدارتی مواخذے کی قرارداد پر اپنے پارلیمانی بائیکاٹ کا فیصلہ کرنے والی حکمران جماعت پیپلز پاور پارٹی نے بعد ازاں اس بارے میں کہا کہ اس نے اس قرارداد پر ووٹنگ کو اپنی غیر حاضری کے ساتھ رکوا کر ملک کو ''شدید تقسیم اور انتشار‘‘ سے بچایا ہے۔
ساتھ ہی اس پارٹی نے یہ بھی کہا کہ وہ اس مسئلے اور اس کی وجہ سے پیدا ہونے والے بحران کو زیادہ ذمے دارانہ طور پر اور منظم طریقے سے حل کرے گی۔‘‘
مظاہرین ناخوش
صدر یون سک یول کے مواخذے کے عمل کی پارلیمانی ناکامی پر جنوبی کوریا کے وہ شہری بہت ناخوش اور غیر مطمئن تھے، جو سیول میں قومی اسمبلی کی عمارت کے باہر اور دیگر مقامات پر جمع تھے۔
جنوبی کوریا کی جانب سے شمالی کوریا پرانتباہی فائرنگ
یہ مظاہرین صدر یون کی پارلیمان کی طرف سے برطرفی کا مطالبہ کر رہے تھے اور پولیس کے مطابق ان کی تعداد تقریباﹰ ڈیڑھ لاکھ تھی۔ اس کے برعکس اس عوامی احتجاج کے منتظمین نے ان مظاہرین کی تعداد ایک ملین تک بتائی۔
کم جونگ اُن نے جنوبی کوریا کو ایٹمی ہتھیاروں کی دھمکی دے دی
ناروے کے دارالحکومت اوسلو کی یونیورسٹی میں کوریائی علوم کے پروفیسر ولادیمیر تیخونوف نے اس بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے نیوز ایجنسی اے ایف پی کے ساتھ گفتگو میں کہا، ''صدارتی مواخذے کی تحریک کی ناکامی کا مطلب یہ ہے کہ اب جنوبی کوریا میں پایا جانے والا سیاسی بحران مزید طول پکڑ جائے گا۔‘‘
م م / ا ا (اے ایف پی، ڈی پی اے، روئٹرز)