جنگ جاری رہے گی، معمر قذافی
23 جون 2011نیٹو فورسز اٹلی کے جنگ بندی کے مطالبے کے باوجود لیبیا پر فضائی حملے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ گزشتہ روز فرانس نے لیبیا میں معمر قذافی کے خلاف جاری فوجی آپریشن میں ممکنہ وقفے کی سخت مخالفت کی تھی۔ فرانس کا کہنا تھا کہ جنگ بندی ایک بڑا خطرہ ہے، کیونکہ اس سے قذافی کو دوبارہ سے منظم ہونے کا موقع مل جائے گا۔
نئے آڈیو پیغام میں قذافی نے کہا، ’’ہم اس وقت تک مزاحمت جاری رکھیں گے، جب تک یہ جنگ جاری رہے گی۔ ہمارا دشمن ختم ہو جائے گا لیکن ہم ختم نہیں ہوں گے۔‘‘
معمر قذافی کا یہ پیغام نیٹو فورسز کے سربراہ آندرس فوگ راسموسن کے اس بیان کے چند گھنٹے بعد سامنے آیا، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ جنگ میں کسی بھی قسم کا کوئی وقفہ نہیں کیا جائے گا۔
معمر قذافی نے نیٹو کی طرف سے 19 جون کو کی جانے والی بمباری کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، ’’ نیٹو فورسز ہمارے خلاف ’صلیبی‘ جنگ کا آغاز کر چکی ہے۔ ہم انہی کے میزائلوں سے ان کا ایک، دو، تین، 10 یا 100 سال تک مقابلہ کریں گے۔‘‘
دوسری جانب امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے کہا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ قذافی اور ان کی فورسز کو ’دیوار کے ساتھ لگا‘ دیا گیا ہے۔ ہلیری کلنٹن نے کہا ہے کہ لیبیا کے باغیوں کو زمینی پیش قدمی میں واضح کامیابی حاصل ہو رہی رہے ہیں۔
عرب نشریاتی ٹیلی وژن الجزیرہ کے مطابق نیٹو کی بمباری بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب بھی جاری رہی۔ اطلاعات کے مطابق لیبیائی شہر زنتان کو نشانہ بنایا گیا۔
نیٹو کے سربراہ کا کہنا تھا کہ فوجی آپریشن روکنے کی وجہ سے وہاں مزید عام شہریوں کی ہلاکتیں ہو سکتی ہیں۔ راسموسن نے ان الزامات کی تردید کی ہے کہ نیٹو کے حالیہ فضائی حملوں میں عام شہریوں کی ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ ان کا کہنا تھا، ’’ہم معمر قذافی کے خلاف ابھی تک 5 ہزار کارروائیاں کر چکے ہیں۔ ہمارے ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ ہم نے عام شہریوں کی حفاطت کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے جاتے ہیں۔‘‘
لیبیا میں ہونے والی شہری ہلاکتوں کے سبب نیٹو پر دباؤ میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ ان ہلاکتوں کا باعث بننے والے آپریشنز کے قانونی جواز پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ نیٹو کے چند اتحادیوں کے اندر آہستہ آہستہ سرد مہری دیکھنے میں آ رہی ہے۔
رپورٹ: امتیاز احمد
ادارت: کشور مصطفیٰ