1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جنگ ختم نہ ہونےکی ذمہ داری امریکا پر عائد کرتے افغان

13 نومبر 2018

نومبر 2001ء میں افغانستان میں امریکی افواج اپنے افغان اتحادیوں کے ہم راہ کابل میں داخل ہوئیں تھیں، تو وہاں لوگوں نے جشن منا کر ان کا استقبال کیا تھا۔ مگر سترہ برس بعد اب افغان باشندے امریکا پر تنقید کرتے نظر آتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/388Xi
Philippinen Militärmanöver Balikatan 2016
تصویر: picture-alliance/Pacific Press

افغانستان پر امریکی حملے اور طالبان حکومت کے خاتمے کے سترہ برس بعد ایک مرتبہ پھر طالبان افغانستان کے قریب نصف حصے پر قابض ہیں جب کہ افغان باشندے جنگ ختم نہ ہونے کی تمام تر ذمہ داری امریکا پر عائد کرتے ہیں۔

امریکا نے اس جنگ میں 24 سو سے زائد فوجی کھوئے۔ یہ جنگ امریکا کی طویل ترین جنگوں میں سے ایک ہے، جس پر اب تک نو سو ارب ڈالر خرچ ہو چکے ہیں۔ یہ سرمایہ عسکری معاونت اور کارروائیوں سے لے کر افغانستان میں سڑکوں، پلوں اور بجلی گھروں کی تعمیر تک خرچ کیا گیا۔

دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ پانچ لاکھ افراد کو نگل چکی ہے

روس میں افغانستان کے موضوع پر بین الاقوامی مذاکرات

تین امریکی صدور افغانستان کے معاملے پر فوجیوں کی تعداد میں اضافے سے فوجی انخلا تک اور طالبان کے خلاف کارروائیوں سے امن مذاکرات تک کئی مختلف طریقے استعمال کر چکے ہیں، جب کہ افغانستان میں امریکا پہلی مرتبہ ’مدر آف آل بمز‘ تک استعمال کر چکا ہے۔ تاہم اب تک افغانستان میں قیام امن اور استحکام کے لیے کوئی حربہ کامیاب نہیں ہوا۔ دوسری جانب افغان عوام اور رہنما اس بابت کئی طرح کے سازشی نظریات تک پر یقین رکھتے ہیں۔

افغانستان کی اعلیٰ امن کونسل کے رکن محمد اسماعیل قاسم یار کو حیرت ہے کہ امریکا اپنے نیٹو اتحادیوں کے ساتھ ڈیڑھ لاکھ کی تعداد میں اپنے فوجیوں کی تعیناتی اور ہزاروں افغان سکیورٹی اہلکاروں کی مدد کے باوجود کیوں چند ہزار طالبان کو ختم نہ کر سکا؟ ’’یا تو یہ ایسا چاہتے نہیں تھا یا کر نہ سکے۔‘‘

قاسم یار اس شبے کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں کہ امریکا اپنے اتحادی ملک پاکستان کے ساتھ دانستہ طور پر افغانستان کو غیرمستحکم کرنے میں مصروف ہے، تاکہ وہاں افراتفری موجود رہے اور افغانستان میں غیرملکی فوجوں کے قیام کی راہ ہم وار رہے۔ واضح رہے کہ اس وقت افغانستان میں غیرملکی فوجیوں کی مجموعی تعداد پندرہ ہزار کے قریب ہے۔ قاسم یار کا کہنا ہے کہ امریکا افغانستان کے ذریعے ایران، روس اور چین پر نگاہ رکھنا چاہتا ہے۔ ’امریکا نے ہمارے لیے افغانستان کو جہنم بنایا ہے، جنت نہیں۔‘‘

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق افغانستان میں اس انداز کے سازشی نظریات کی بازگشت ہر جانب سنائی دیتی ہے۔ گزشتہ ماہ قندھار پولیس کے سربراہ جنرل عبدالرزاق طالبان کے ایک حملے میں مارے گئے، تو سوشل میڈیا صارفین اس معاملے کو بھی ’امریکی سازش‘ قرار دیا۔ ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق حالیہ داخلی حملوں میں امریکی اور اس کے نیٹو اتحادیوں کے فوجیوں کی ہلاکت پر بھی سوشل میڈیا میں جشن منایا جاتا رہا۔

سابق افغان صدر حامد کرزئی کے مطابق، ’’سن 2001ء میں امریکا اور بین الاقوامی برادری کی مداخلت کو افغان عوام نے کھلے دل سے خوش آمدید کہا تھا۔ کچھ عرصے تک کئی چیزیں نہایت درست انداز سے چلتی رہیں۔ مگر پھر ہم نے دیکھا کہ امریکا نے اپنا راستہ تبدیل کیا یا افغان عوام کے نکتہ ہائے نگاہ اور حالات کو یکسر انداز کرنا شروع کر دیا۔‘‘

ع ت، الف ب الف (اے پی، روئٹرز)