دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ پانچ لاکھ افراد کو نگل چکی ہے
9 نومبر 2018امریکی براؤن یونیورسٹی کے بین الاقوامی تعلقات اور عوامی امور کے شعبے کی جانب سے کرائے گئے ایک جائزے کے مطابق انسداد دہشت گردی کی امریکی جنگ کے دوران ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد چار لاکھ اسی ہزار سے لے کر پانچ لاکھ سات ہزار کے درمیان ہو سکتی ہے۔ تاہم اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔
اس جائزہ رپورٹ کو نیٹا کرافورڈ نے مرتب کیا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ امریکی اور مقامی فوج ہلاک ہونے والوں کو اکثر شدت پسند قرار دے دیتی ہے حالانکہ حقیقت میں یہ عام شہری ہوتے ہیں، ’’ہمیں شاید کبھی بھی اس جنگ میں ہلاک ہونے والوں کی اصل تعداد کا علم نہیں ہو سکے گا۔ مثال کے طور پر عراق میں موصل اور دیگر شہروں کو داعش کے ہاتھوں سے آزاد کرانے کی لڑائی میں ہو سکتا ہے کہ ہزاروں عام شہری مارے گئے ہوں، لیکن ان کی لاشیں برآمد نہیں ہو سکیں‘‘۔
اگست 2016ء میں براؤن یونیورسٹی نے اس سلسلے میں ایک جائزہ شائع کیا تھا، تاہم جمعرات آٹھ نومبر کو جاری کیے جانے والے اس تازہ جائزے میں مرنے والوں کی تعداد میں گزشتہ جائزے کے مقابلے میں ایک لاکھ دس ہزار کا اضافہ دیکھا گیا ہے، ’’امریکی عوام، ذرائع ابلاغ اور قانون دانوں کی جانب سے دہشت گردی کے خلاف اس جنگ کو اکثر نظر انداز کیا جاتا ہے لیکن ہلاکتوں میں اضافہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ ختم ہونے کی بجائے اس جنگ میں شدت بدستور موجود ہے۔‘‘
اس جائزے کے مطابق ان سترہ برسوں میں ہلاک ہونے والوں میں شدت پسند، مقامی پولیس اور فوج کے اہلکاروں کے ساتھ ساتھ عام شہریوں کے علاوہ امریکی و اتحادی افواج کے اہلکار بھی شامل ہیں۔
اس رپورٹ میں پیش کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق عراق میں ایک لاکھ اسی ہزار سے دو لاکھ چار ہزار کے درمیان عام شہری ہلاک ہوئے، افغانستان میں یہ تعداد اڑتیس ہزار کے لگ بھگ رہی جبکہ پاکستان میں تیئس ہزار سے زائد عام شہریوں کی جانیں ضائع ہوئیں۔
عراق اور افغانستان میں ہلاک ہونے والے امریکی فوجیوں کی تعداد سات ہزار کے قریب رہی۔ ان اعداد و شمار میں مارے جانے والے ان تمام افراد کو شامل نہیں کیا گیا، جو بالواسطہ طور پر اس جنگ کی زد میں آ کر ہلاک ہوئے، مثال کے طور پر بنیادی ڈھانچےکے تباہ ہونے یا وبائی امراض پھیلنے سے۔