’جنگل‘ میں رہیں یا چلے جائیں؟
7 اکتوبر 2016جنگل کیمپ کا امجد نامی ایک پاکستانی رہائشی یہاں سے جلد از جلد چلے جانا چاہتا ہے۔ امجد نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا،’’ یہ ہمیں گزشتہ چھ ماہ سے بتا رہے ہیں کہ اِس مہاجر کیمپ کو بند کیا جا رہا ہے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوتا۔‘‘ امجد نے مزید کہا ،’’ یہاں سب ہی یہ بات جانتے ہیں کہ انہیں جلد یہاں سے جانا ہو گا اور وہ حیران ہیں کہ آخر وہ کریں گے کیا۔ میں تو یہاں سے ٹرین لے کر پیرس چلا جاؤں گا۔‘‘
فرانسیسی حکام کا کہنا ہے کہ چینل پورٹ میں واقع اس وسیع و عریض متنازعہ مہاجر بستی کو ختم کرنے کا کام رواں ماہ کے ختم ہونے سے پہلے ہی شروع کر دیا جائے گا۔ منصوبے کے تحت جنگل کیمپ کے پناہ گزینوں کو فرانس بھر میں ایک سو کے قریب استقبالیہ مراکز میں منتقل کیا جائے گا۔
مہاجر کیمپ میں مقیم کچھ افراد اس منتقلی کے لیے تیار بھی نظر آتے ہیں۔ ایک نوجوان سوڈانی مہاجر نوح کا کہنا تھا،’’اچھا ہے کہ جنگل کیمپ کو ختم کیا جا رہا ہے۔ ایسا کرنے سے ہم اس سے بہتر مقامات پر منتقل ہو سکیں گے۔‘‘
گزشتہ ہفتے کیلے شہر کے دورے کے موقع پر فرانسیسی صدر فرانسوا اولانڈ نے کہا تھا کہ سال کے آخر تک اِس مہاجر بستی کو ختم کر دیا جائے گا۔ فرانس میں تارکینِ وطن کی عارضی منتقلی کا معاملہ یورپ میں مہاجرین کے بحران کے تناظر میں نہ صرف سیاست دانوں کے مابین اختلافِ رائے کا باعث بنا ہے بلکہ فرانس اور برطانیہ کی حکومتوں کے درمیان ایک مستقل تناؤ کا سبب بھی ہے۔
جنگل نامی مہاجر کیمپ میں کام کرنے والے امدادی کارکنوں کا کہنا ہے کہ یہاں رہائشیوں کی تعداد میں گزشتہ چند ہفتے میں کمی ہوئی ہے۔ کیمپ کا مرکزی حصہ اس ہفتے تقریباﹰ خالی تھا۔
کیمپ کے بہت سے رہائشی تاہم ایسے بھی ہیں جو فرانس کے شمالی ساحل کو نہیں چھوڑنا چاہتے۔ وہ اب بھی برطانیہ کی طرف جانے والے ٹرکوں پر چھپ کر سوار ہونے کا خطرہ مول لینے کے لیے تیار ہیں۔ گزشتہ ماہ ہی ایک چودہ سالہ افغان لڑکا ٹرک پر سوار ہونے کی کوشش کرتے ہوئے ہلاک ہو گیا تھا۔
فرانسیسی وزیرِ داخلہ برنارڈ کاسینیو نے رواں ہفتے ایک بیان میں کہا تھا کہ جنگل کے مہاجر کیمپ میں قریب نو سو پچاس بچے رہائش پذیر ہیں جن میں سے بہت سے بچے تنہا رہ رہے ہیں۔ جنگل کیمپ کے مکینوں کے حق میں مہم چلانے والے امدادی کارکنوں کا کہنا ہے کہ بہت سے بچوں کے والدین برطانیہ میں ہیں لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ انہیں برطانیہ بھیج دے۔