جنگی جرائم کی عدالت: فلسطینی رکنیت پر اسرائیل مشکل میں
31 مارچ 2015پیر 31 مارچ کے روز ہالینڈ کے شہر دی ہیگ سے موصولہ نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ یکم اپریل سے فلسطینی علاقوں کو اس عالمی عدالت کے 123 ویں رکن کی باقاعدہ حیثیت حاصل ہو جائے گی۔ یہ فلسطین کے لیے اس وجہ سے ایک فیصلہ کن موقع ہو گا کہ رکنیت کے بعد فلسطینی خود مختار انتظامیہ اسرائیل کے ساتھ اپنے عشروں پرانے تنازعے کو اس عدالت میں لا سکے گی۔
اسرائیل نہ صرف اس عالمی فوجداری عدالت کے خلاف ہے بلکہ وہ اس کا رکن بھی نہیں ہے اور نہ ہی اس کا کوئی ارادہ ہے کہ وہ اُن ممکنہ جنگی جرائم کی چھان بین کے سلسلے میں اس عدالت سے کوئی تعاون کرے جن کا ارتکاب فلسطینیوں اور اسرائیل کے درمیان گزشتہ جنگوں کے دوران کیا گیا تھا۔
اسرائیل نے گزشتہ برس 31 دسمبر کے روز کیے جانے والے اس اعلان پر شدید برہمی کا اظہار کیا تھا جس میں فلسطینی قیادت نے اس عدالت کی رکنیت سے متعلق اپنے ارادے ظاہر کیے تھے۔ اس پر اسرائیل نے فلسطینی انتظامیہ کو اس کے ارادوں سے بالواسطہ طور پر روکنے کی کوشش بھی کی تھی اور اس عالمی عدالت کو فنڈز مہیا کرنے والے ملکوں کی طرف سے رقوم کی فراہمی رکوانے کے لیے اپنا اثر و رسوخ بھی استعمال کیا تھا۔
اس موضوع پر روئٹرز نے اپنے ایک تفصیلی تجزیے میں لکھا ہے کہ فلسطینی خود مختار علاقوں کی انٹرنیشنل کریمنل کورٹ کی اس رکنیت نے اسرائیل کو مخمصے میں ڈال دیا ہے۔ اب اسرائیل کا المیہ یہ ہے کہ اسے یا تو دی ہیگ کی اس عدالت سے اپنی اب تک کی پالیسیوں میں بڑی تبدیلیاں لاتے ہوئے تعاون کرنا پڑے گا یا پھر اس کے خلاف فلسطینی اس طرح اور اتنے مقدمے دائر کریں گے کہ اسرائیل قانونی طور پر الگ تھلگ ہو کر رہ جائے گا۔
روئٹرز کے مطابق طویل المدتی بنیادوں پر ایک ممکنہ راستہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اسرائیل اپنے اب تک کے انکار اور مخالفت کے باوجود اس عالمی عدالت میں اپنی شمولیت کا فیصلہ کرنے پر بھی مجبور ہو جائے۔ ان حالات میں یہ بات بھی اہم ہو گی کہ دی ہیگ کی یہ عالمی عدالت انہی اصولوں کی بنیاد پر قائم کی گئی تھی، جن کی بنیاد پر دوسری عالمی جنگ کے بعد شکست خوردہ جرمنی میں نیورمبرگ کے مقام پر زیر حراست نازی رہنماؤں کے خلاف تاریخی عدالتی کارروائی مکمل کی گئی تھی۔
بین الاقوامی قانون کے تحت اور عالمی فوجداری عدالت کے ایک رکن کے طور پر یکم اپریل سے فلسطینی خود مختار علاقوں کو حاصل ہونے والی نئی حیثیت کے بارے میں ایک اعلیٰ فلسطینی نمائندے نے روئٹرز کے ساتھ بات چیت میں کہا، ’’یہ عدالت (آئی سی سی) اپنے ہاں پیشی کے لیے سمن بھی جاری کرتی ہے اور مجرموں کی گرفتاری کے وارنٹ بھی۔ اگر کوئی ملک کسی بھی طرح کا ردعمل ظاہر نہ کرے تو یہ عدالت بہت کچھ کہہ سکتی ہے اور کہے گی۔‘‘
اس اعلیٰ فلسطینی عہدیدار کے بقول، ’’اب تک جس طرح کا ہیجان اور بدحواسی سے عبارت ردعمل اسرائیل کی طرف سے دیکھنے میں آیا ہے، وہ ظاہر کرتا ہے کہ ہم اکیلے فلسطینی ہی اس کورٹ کے حوالے سے بہت سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کر رہے۔‘‘
ادھر اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ اسرائیل فی الحال کوئی بھی تبصرہ کرنے سے پہلے یہ دیکھے گا کہ فلسطینیوں کو اس عالمی فوجداری عدالت کی رکنیت مل جانے کے بعد حالات کیا رخ اختیار کرتے ہیں۔
کل یکم اپریل 2015ء سے فلسطینی خود مختار علاقے خود بخود اس بین الاقوامی عدالت کے دائرہ کار میں آ جائیں گے۔ تب یہ عدالت ان علاقوں میں، وہاں کی انتظامیہ کے خلاف یا فلسطینی شہریوں کے خلاف کسی بھی طرح کے جرائم کے ارتکاب کی صورت میں مقدمات کی سماعت کی مجاز ہو گی۔
ہالینڈ کے شہر دی ہیگ میں یہ عالمی عدالت 13 برس قبل قائم کی گئی تھی اور اس کا بنیادی کام جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کی چھان بین کے بعد ذمے دار افراد کو سزائیں سنانا ہے۔