'جنگی جرائم کے احتساب پر بھارت کے ساتھ اتفاق کی توقع ہے'
2 مئی 2022جرمن چانسلر اولاف شولس نے برلن میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سے اپنی پہلی ملاقات سے قبل کہا کہ یوکرین پر روسی حملے سمیت موسمیاتی تبدیلی کے خلاف جنگ اور آزاد تجارتی معاہدے جیسے کئی اہم امور پر بات چیت کا امکان ہے۔
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اپنے تین روزہ دورہ یورپ کے پہلے مرحلے میں پیر کی صبح برلن پہنچے ہیں، جہاں وہ جرمن چانسلر سے بات چيت کے ساتھ ساتھ کاروباری شخصیات سے بھی ملاقات کرنے والے ہیں۔ اس کے بعد وہ فرانس اور ڈنمارک کے دورے پر روانہ ہوں گے۔
جرمن چانسلر نے کیا کہا؟
جرمن چانسلر اولاف شولس نے بھارت کے معروف انگریزی اخبار ’’دی انڈین ایکسپریس‘‘ سے ایک خصوصی انٹرویو میں کہا کہ وہ ’پراعتماد‘ ہیں کہ بھارت اور جرمنی کے درمیان اس بات پر وسیع تر اتفاق ہے کہ یوکرین کے خلاف روسی کارروائی اقوام متحدہ کے چارٹر کے بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ’’یوکرین پر روسی حملہ تمام یورپ کے لیے ایجنڈے میں سر فہرست ہے۔ روس کی جنگ، خود مختاری اور بین الاقوامی سرحدوں کی ناقابل تسخیریت اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔ یوکرین میں شہریوں کے خلاف روسی جارحیت کی بربریت افسوسناک اور خوفناک ہے۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا، ’’شہری آبادی کے خلاف قتل عام جنگی جرائم ہیں اور اس کے ذمہ داروں کا احتساب ہونا چاہیے۔ میں پر اعتماد ہوں کہ ان پہلوؤں پر دونوں ملکوں کے درمیان وسیع تر اتفاق ہے۔‘‘
جرمن چانسلر نے کہا، ’’میں یہاں برلن میں وزیر اعظم مودی اور ان کی حکومت کے متعدد ارکان کا استقبال کرنے کا منتظر ہوں۔ یہ ہمارے پہلے سے قریبی تعلقات کو مزید گہرا کرنے کے ساتھ ہی انہیں ایک نئی جہت تک پہنچانے کا موقع ہو گا۔‘‘
ان سے جب یہ سوال کیا گیا کہ بھارت دفاعی نکتہ نظر سے روس پر بہت انحصار کرتا ہے اور جرمنی کا بھی توانائی کے لیے روس پر بہت انحصار ہے، تو کیا دونوں ملکوں کا طرز عمل مختلف ہے؟ اس پر جرمن چانسلر نے کہا یورپی ممالک نے روسی اقدامات کے خلاف بہت سے سخت فیصلے کیے ہیں اور روس کے خلاف بہت سی غیر مثالی پابندیاں عائد کی ہیں۔
انڈو پیسیفیک کے چیلنجز اور بھارت چین تعلقات کے حوالے سے، جرمنی کی حکمت عملی سے متعلق ایک سوال کے جواب میں انہوں نے، ’’جرمن بھارتی تعلقات کے حوالے سے بین الحکومتی مشاورت، سب سے اول اور سب سے اہم چیز ہے۔ یقیناً ہم بین الاقوامی تعلقات اور سکیورٹی کے مجموعی ماحول پر بھی بات چيت کریں گے۔ انڈوپیسیفیک سے متعلق ہمارے رہنما خطوط ہمارے عمومی نقطہ نظر کو بیان کرتے ہیں، جو تمام تر کثیرالجہتی اور جامع ہیں۔‘‘
مغربی ممالک کی یہ کوشش رہی ہے کہ یوکرین پر روسی حملے کے تناظر میں نئی دہلی کو ماسکو کے ساتھ تعلقات کو کم کرنے کی ترغیب دی جائے اور اس سلسلے میں مغربی ممالک کی کئی اہم شخصیات نئی دہلی کا دورہ بھی کر چکی ہیں۔
مودی کا دورہ یورپ
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے برلن پہنچنے کے فوری بعد اپنے ایک ٹوئٹر پیغام میں کہا کہ وہ اپنے جرمن ہم منصب اولاف شولز سے ملاقات کرنے کے ساتھ ساتھ کاروباری شخصیات سے بھی ملنے والے ہیں۔
’’برلن پہنچ چکا ہوں۔ آج میں چانسلر اولاف شولس کے ساتھ بات چیت کروں گا۔ کاروباری رہنماؤں کے ساتھ ملاقات کروں گا اور ایک کمیونٹی پروگرام سے بھی خطاب کروں گا۔ مجھے یقین ہے کہ یہ دورہ بھارت اور جرمنی کے درمیان دوستی کو فروغ دے گا۔‘‘
اطلاعات کے مطابق انسانی حقوق کے بہت سے کارکنان مودی کے دورے کے خلاف برلن اور دیگر جرمن شہروں میں مظاہرہ بھی کرنے والے ہیں۔ اس احتجاج کی تھیم، ’’مودی کا جرمنی میں استقبال نہیں‘‘ہے۔
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے ناقدین کا کہنا ہے کہ ان کی ہندو قوم پرست حکمران جماعت بی جے پی 2014 میں اقتدار میں آنے کے بعد سے معاشرے کو مذہبی خطوط پر مسلسل تقسیم کرنے اور مذہبی منافرت کو فروغ دینے کا کام کرتی رہی ہے۔
مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ہی دائیں بازو کے ہندو قوم پسند گروپوں نے ملکی اقلیتوں پر اپنے حملے تیز کر دیے اور وہ اب بھی آئے دن مساجد اور دیگر املاک کو نشانہ بناتے رہتے ہیں۔