مہاجرین کہاں سے آ رہے ہیں اور انہیں کون پناہ دے رہا ہے؟
23 مارچ 20232022ء کے موسم گرما تک دنیا میں 32 ملین افراد ایسے تھے جنہیں اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کی طرف سے باقاعدہ مہاجرین کا درجہ حاصل تھا۔ یو این ایچ سی آر کے مطابق ان میں سے 72 فیصد کا تعلق محض پانچ ممالک سے تھا۔
زیادہ تر کا تعلق شام سے ہے جہاں 2011ء میں شروع ہونے والی عرب اسپرنگ نامی تحریک کا نتیجہ خانہ جنگی کی صورت میں نکلا اور پھر دنیا کے کئی ممالک کے اس میں کود پڑنے کے سبب یہ بدامنی آج تک جاری ہے۔
5.6 ملین کے ساتھ دوسرا سب سے بڑا گروپ وینزویلا سے تعلق رکھنے والے مہاجرین کا ہے۔ یہ جنوبی امریکی ملک کئی برسوں سے انتہائی شدید سیاسی، معاشی اور انسانی بحران کا شکار ہے۔ قریب اتنی ہی تعداد یوکرین سے آنے والے مہاجرین کی ہے۔ یوکرینی مہاجرین کی یہ تعداد گزشتہ برس یعنی 2022ء کے وسط میں تھی اور اس کے بعد سے اس میں مسلسل اضافہ ہوا ہے اور اب یہ تعداد قریب آٹھ ملین تک پہنچ چکی ہے۔
زیادہ تر مہاجرین کی تعداد تو محض چند ایک ممالک سے ہے، مگر ان ممالک کی صورتحال زیادہ واضح نہیں جو ان مہاجرین کو پناہ دے رہے ہیں۔ وہ پانچ ممالک مندرجہ ذیل ہیں، جہاں مہاجرین کی سب سے زیادہ تعداد موجود ہے اور جو ان مہاجرین کے 36 فیصد کو پناہ دیے ہوئے ہیں۔
1۔ ترکی 3.7 ملین
2۔ کولمبیا 2.5 ملین
3۔ جرمنی 2.2 ملین
4۔ پاکستان 1.5 ملین
5۔ یوگنڈا 1.5 ملین
اس فہرست میں موجود آخری دو ممالک زیادہ تر یورپی عوام میں پائی جانے والی اس غلط فہمی کو دور کرنے کے لیے کافی ہیں کہ افریقہ اور ایشیا سے تعلق رکھنے والے تمام تر مہاجرین یورپی ممالک کا رُخ کرتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق براعظم افریقہ سے تعلق رکھنے والے مہاجرین کی 80 فیصد تعداد اسی براعظم کے اندر ہی کسی ملک میں پناہ حاصل کیے ہوئے ہے۔ اسی طرح ایشیائی ممالک سے مہاجرت اختیار کرنے والے بھی زیادہ تر اسی براعظم میں ہی پناہ حاصل کیے ہوئے ہیں۔ یعنی علاقائی مہاجرت عالمی منظرنامے پر اکثریت لیے ہوئے ہے۔
اعداد وشمار سے ہٹ کر یہ سوال اہم ہے کہ کون سے ممالک اپنی مجموعی آبادی کے مقابلے میں کتنے مہاجرین کو اپنے ہاں پناہ دے رہے ہیں۔ اس حوالے سے لبنان سب سے اہم ہے۔ اسٹیسٹیکا کے اعداد وشمار کے مطابق سال 2020ء کے اختتام پر لبنان کی کُل آبادی کا 13 فیصد مہاجرین پر مبنی تھا اور ان میں سے زیادہ تر کا تعلق شام سے تھا۔ ان میں فلسطینی مہاجرین کی تعداد شامل نہیں ہے جو اندازوں کے مطابق ڈھائی سے تین لاکھ تک کی تعداد میں اس ملک میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔
کیریبیئن جزائر آرُوبا اور کورساؤ میں بھی مہاجرین کی بلند ترین شرح موجود ہے جو بہت سے لوگوں کے لیے حیران کن بات ہے۔ اسٹیسٹیکا کے مطابق سال 2020ء کے اختتام پر اس جزیرے کی کُل آبادی 112,000 تھی اور ان میں سے 16 فیصد مہاجرین تھے۔ ان میں سے زیادہ تر کا تعلق ہمسایہ ریاست وینزویلا سے تھا۔
جرمنی میں رجسٹرڈ بے وطن انسانوں کی تعداد نو سال میں دو گنا
2014ء کے بعد سے ہزارہا افراد ہلاک یا لاپتہ
ایک بہتر زندگی کی تلاش میں مہاجرین اور تارکین وطن کو بہت کچھ داؤ پر لگانا پڑتا ہے۔ انہیں بھوک، بیماری اور یہاں تک کہ تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان میں سے بعض تو اس کی قیمت اپنی جان کی صورت میں ادا کرتے ہیں۔ انٹرنینشل آرگنائزیشن فار مائیگرینٹس (آئی او ایم) کے مطابق 2014ء سے 2022ء کے دوران 50 ہزار افراد ہلاک یا لاپتہ ہوئے۔ ایسے واقعات کی تعداد بھی کافی زیادہ متوقع ہے جنہیں رپورٹ نہیں کیا گیا۔
ان ہلاک یا لاپتہ ہونے والوں کی نصف سے زائد تعداد بحیرہ روم کے راستے یورپ پہنچنے کی کوشش کرنے والوں کی ہے۔ 2014ء کے بعد سے بحیرہ روم کو پار کر کے یورپی ممالک تک پہنچنے کی کوشش کے دوران 26 ہزار سے زائد تارکین وطن ڈوبے۔
اس طرح ترک وطن کے لیے بحیرہ روم کا راستہ اس مقصد کے لیے دنیا کا خطرناک ترین راستہ بن گیا ہے۔
دوسرا سب سے خطرناک علاقہ افریقہ اور خاص طور پر صحارا ریگستان ہے جسے بہت سے تارکین وطن شمالی افریقی ممالک سے بحیرہ روم کے ساحلی علاقوں تک پہنچنے کے لیے پار کرتے ہیں۔
اینس ایزیلے (ا ب ا/ا ا)