جو بائیڈن کا بھارت سے ’خون کا رشتہ‘ ہے!
9 نومبر 2020جو بائیڈن نے خود بھی 2013 میں امریکا کے نائب صدر کی حیثیت سے بھارت کے دورے کے دوران ممبئی میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بھارت سے اپنی 'رشتہ داری‘ کا ذکر کیا تھا۔ اور2015 میں امریکا میں انڈو۔یوایس فورم کی ایک میٹنگ سے خطاب کے دوران بھی اپنے اس تعلق کا اعادہ کیا تھا۔ تاہم بائیڈن کے بھارت سے ’خون کے رشتے‘ کی تصدیق کے حوالے سے اب تک ٹھوس اور تاریخی شواہد نہیں مل سکے ہیں۔
دراصل 2013 میں جو بائیڈن نائب صدر کی حیثیت سے جب بھارت کے چار روزہ سرکاری دورے پر آئے تھے تو انہوں نے بامبے اسٹاک ایکسچنج میں سامعین سے خطاب کرتے ہوئے انکشاف کیا تھا کہ 1972میں جب وہ پہلی مرتبہ سنیٹر منتخب ہوئے تو انہیں ”ممبئی سے بائیڈن نامی ایک شخص نے خط بھیجا اور بتایا کہ وہ ان کا رشتہ دار ہے۔"
مذکورہ شخص نے اپنے خط میں دعوی کیا تھا کہ وہ دونو ں ہی کسی ایک ایسے شخص کی نسل سے تعلق رکھتے ہیں جو کبھی سابقہ ایسٹ انڈیا کمپنی میں ملازمت کرتے ہوں گے۔ بائیڈن، جن کی عمر اس وقت 29 برس تھی اور حال ہی میں امریکی سینیٹ کے لیے منتخب ہوئے تھے، نے مزید بتایا تھا کہ وہ اس دعوے کی تصدیق کرنا چاہتے تھے لیکن بعض ناگزیر اسباب کی وجہ سے ایسا نہیں کرسکے۔
اس واقعہ کے چند برس بعد امریکا میں منعقد ایک دوسری تقریب میں بائیڈن نے دعوی کہا تھا کہ ان کی پانچ نسل قبل یعنی ان کے پردادا کے دادا جارج بائیڈن کے دو بھائی ایسٹ انڈیا کمپنی میں کیپٹن تھے اور وہ ایک بھارتی خاتون کے ساتھ شادی کرکے بھارت میں ہی مقیم ہوگئے تھے۔
بھارتی روزنامہ ٹائمز آف انڈیا میں اس وقت شائع ایک خبر کے مطابق جو بائیڈن نے بتایا تھا کہ ان دونوں بھائیوں کے نام ولیم ہنری بائیڈن اور کرسٹوفر بائیڈن تھے۔
ممبئی سے سرگرم خارجہ پالیسی کی ایک تھنک ٹینک گیٹ وے ہاوس کے مطابق کرسٹوفر بائیڈن اور ہنری بائیڈن کے ایسٹ انڈیا کمپنی میں کیپٹن کے طور پر کام کرنے کا کوئی ریکارڈ اب تک دستیاب نہیں ہوسکا ہے۔ تاہم کنگس کالج لندن میں تاریخ کے استاد اور سابق سفارت کار ٹیم ویلیزی ویلز نے گیٹ وے ہاوس کے جریدے میں اپنے مضمون میں لکھا ہے ”کسی جارج بائیڈن کا ریکارڈ نہیں ہے۔ لیکن انہوں نے دستاویزات میں دو بائیڈن برادران کے نام دیکھے ہیں۔ جنہوں نے برطانوی کمپنی کے لیے جہازوں کی کپتانی کی تھی۔ ولیم ہنری بیڈن 1843میں رنگون میں انتقال سے قبل تک کئی مرتبہ سمندری سفر پر گئے۔ ان کے بھائی کرسٹوفر بائیڈن نے پہلی مرتبہ 1821میں جہاز کی کپتانی کی اور برطانیہ اور کولکاتہ کے درمیان پانچ مرتبہ بحری سفر کیے۔ ہر ایک بحری سفر گوکہ کافی تکلیف دہ تھا لیکن یہ ان کے لیے منفعت بخش بھی تھا اور ہر سفر میں تقریباً ایک سال کا وقت لگا۔
ٹم ویلیزی نے مزید لکھا ہے کہ ولیم کا رنگون میں 1843میں 51 برس کی عمر میں انتقال ہوگیا۔ لیکن کرسٹوفر نے جنوبی بھارت کے شہر مدراس (اب چینئی) میں سکونت اختیار کرلی اور وہ وہاں کی معروف شخصیات میں شمار کیے جاتے تھے۔ کرسٹوفر نے 1830میں بحریہ کے امور سے متعلق ایک کتاب بھی لکھی تھی۔ اس کتاب میں بحری اسفار کے حوالے سے متعدد کہانیاں، سفر میں پیش آنے والے مسائل اور ان کا حل، جہازوں کی خرابی اور ان کی مرمت وغیرہ جیسے امور پر تفصیلات موجود ہیں۔
کرسٹوفر نے ہیریٹ فریتھ نامی ایک خاتون سے شادی کی۔ جس سے ان کا ایک بیٹا اور دو بیٹیاں ہوئیں۔ ان میں سے ایک بیٹی کی ایک سمندری سفر کے دوران موت ہوگئی۔
ٹم ویلیزی کے مطابق مدراس میں 19برس تک قیام کے دوران کرسٹوفر اپنی رحم دلی، عوام دوستی اور یتیموں اور بیواوں کی بہبود کی وجہ سے کافی مقبول تھے۔ انہوں نے بلا تفریق تمام لوگوں کی مدد کی۔ انہوں نے بحریہ کو بہتر بنانے کے لیے بھی کام کیا۔ ان کا بیٹا ہوراٹیو مدراس آرٹیلری میں کرنل کے عہدے پر فائزہ ہوا۔
کرسٹوفر کی 1858میں مدراس میں ہی موت ہوئی اور مدراس کیتھیڈرل میں ان کی آخری آرام گاہ اب بھی موجود ہے۔ چینئی کے میوزیم میں مدراس کے مقبروں اور تاریخی عمارتوں کی جو فہرست ہے اس میں درج ہے کہ”کرسٹوفر بائیڈن اپنی ذمہ داریوں کے تئیں پوری طرح وقف تھے اور گیارہ ستمبر کو شرپسندوں کا نشانہ بن گئے۔"
بہر حال بیشتر مورخین کرسٹوفر بائیڈن اور امریکا کے نو منتخب صدر جو بائیڈن کے درمیان کسی طرح کا براہ راست تعلق کی تائید نہیں کرتے ہیں۔
معروف مورخ وی سری رام، ٹم ویلیزی کے دعووں کی تردید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کرسٹوفر نے کسی بھارتی خاتون سے شادی نہیں کی تھی۔ ”انہیں (ویلیزی کو) دراصل نام کے سلسلے میں غلط فہمی ہوئی ہے۔ وہ غالباً جارج بائیڈن کے بارے میں بات کررہے ہیں۔ اور جارج بائیڈن اور کرسٹوفر بائیڈن دو الگ الگ شخص تھے۔"
بھارت میں بہر حال امریکا کے نو منتخب صدر جو بائیڈن سے 'خون کا رشتہ‘ کا دعوی کرنے والا کوئی شخص ابھی تک سامنے نہیں آیا ہے۔