جوزجان میں افغان دستوں، داعش کے جنگجوؤں کے مابین شدید جھڑپیں
21 جون 2017افغان دارالحکومت کابل سے بدھ اکیس جون کو ملنے والی نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق شمالی افغان صوبے جوزجان میں ایک سرکردہ علاقائی رہنما نے بتایا کہ شدت پسند تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش کے سینکڑوں مشتبہ جنگجو جوزجان کے جس ضلع پر قبضے کی کوشش کر رہے ہیں، وہ ابھی تک سرکاری دستوں کے کنٹرول میں ہے لیکن انہیں دو روز سے عسکریت پسندوں کے بھرپور حملوں کا سامنا ہے۔
تورا بورا کا علاقہ داعش سے واپس لے لیا، افغان حکام
داعش کا افغان ٹیلی وژن اسٹیشن پر حملہ، چھ ہلاک
افغانستان: داعش کا لیڈر عبدالحسیب امریکی آپریشن میں ہلاک؟
سرکردہ علاقائی رہنما اور جوزجان کے ضلع درزاب کے سابق گورنر رحمت اللہ حاشر نے بتایا کہ ان جھڑپوں میں اب تک کم از کم آٹھ افغان پولیس اہکار ہلاک اور تیس سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔ عسکریت پسندوں کو پہنچنے والے جانی نقصان کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔
حاشر نے کہا کہ اب تک ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے جنگجو اس ضلع میں سکیورٹی دستوں کے پانچ پوسٹوں کے علاوہ ضلع کے وسط سے مشرق اور جنوب مشرق کی طرف چھ دیہات پر بھی قبضہ کر چکے ہیں، جس کے بعد وہ اب درزاب کے وسطی حصے کو بھی اپنے قبضے میں لے کر اس ضلع پر اپنا کنٹرول یقینی بنانے کی کوششوں میں ہیں۔
ڈی پی اے کے مطابق رحمت اللہ حاشر کے ان بیانات کی افغان حکومتی ذرائع نے تصدیق نہیں کی تاہم کئی مقامی رہنماؤں کے مطابق صورت حال ویسی ہی ہے، جیسی سابق ضلعی گورنر نے بیان کی ہے۔ جوزجان میں درزاب پر داعش کے قریب 600 عسکریت پسندوں نے یہ حملہ پیر انیس جون کی شام شروع کیا تھا، جس کے بعد سے اب تک وہاں جھڑپیں جاری ہیں۔
رحمت اللہ حاشر نے مزید بتایا کہ یہ جنگجو اپنے ساتھ داعش کے سیاہ رنگ کے پرچم لیے ہوئے ہیں۔ ڈی پی اے نے لکھا ہے کہ اگر متعدد ذرائع سے ان شدت پسندوں کے داعش کے جنگجو ہونے کی تصدیق ہو گئی تو یہ پہلا ثبوت ہو گا کہ افغانستان میں شدت پسند تنظیم داعش اب شمالی صوبے جوزجان میں بھی پہنچ چکی ہے۔
اب تک افغانستان میں ’اسلامک اسٹیٹ‘ کی موجودگی زیادہ تر محض صوبے ننگرہار کے چند اضلاع تک ہی محدود تصور کی جاتی تھی۔ یہ صوبہ افغانستان کا ایسا علاقہ ہے، جہاں مختلف ذرائع کے مطابق داعش کی اتحادی ایک اور شدت پسند تنظیم ’اسلامک موومنٹ آف ازبکستان‘ بھی سرگرم رہی ہے۔