جولیان اسانج کو امریکہ حوالگی کے خلاف اپیل کی اجازت مل گئی
20 مئی 2024وکی لیکس کے بانی جولیان اسانج کی ان کی امریکہ حوالگی سے بچنے کی قانونی جنگ میں آج پیر کے روز انہیں اس وقت ایک بڑی کامیابی ملی، جب لندن ہائی کورٹ نے انہیں برطانوی حکومت کی طرف سے امریکہ کے حوالے کرنے کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنےکی اجازت دے دی۔
ہائی کورٹ کے ججوں وکٹوریہ شارپ اور جیریمی جانسن نے کہا کہ اسانج کے پاس برطانوی حکومت کے حکم کو چیلنج کرنے کی بنیادیں موجود ہیں۔ 52 سالہ آسٹریلوی شہری اسانج پر تقریباً 15 سال قبل اپنی ویب سائٹ پر امریکی خفیہ اداروں کی دستاویزات کی اشاعت پر جاسوسی کے 17 اور کمپیوٹر کے غلط استعمال کے ایک الزام میں فرد جرم عائد کی جا چکی ہے۔
اس سے قبل مارچ میں ہائی کورٹ نے اسانج کو برطانیہ بدر کرنے کے فیصلے کے خلاف عبوری اپیل کرنے کی اجازت دی تھی۔ لیکن اس کے ساتھ ہی عدالت نے امریکی استغاثہ سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ ایسی اطمینان بخش یقین دہانیاں فراہم کریں کہ امریکہ میں اسانج کے خلاف مقدمے میں ان کے لیے سزائے موت کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا اور انہیں آزادی اظہار کے حق پر امریکی آئین کی پہلی ترمیم پر انحصار کی اجازت بھی دی جائے گی۔
تاہم پیر کے روز ایک مختصر فیصلے میں لندن ہائی کورٹ کے دو سینئر ججوں نے قرار دیا کہ امریکہ اس سلسلے میں کافی یقین دہانیاں نہیں کرا سکا اس لیے وہ اسانج کو اپنی امریکہ حوالگی کے خلاف باقاعدہ اپیل دائر کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔
عدالت کی جانب سے ریلیف ملنے کے بعد اسانج کے حامیوں نے عدالت کے باہر خوشی منائی اور تالیاں بجائیں۔ اسانج کی اہلیہ سٹیلا نے عدالت کے باہر کہا کہ امریکی وکلاء نے ججوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کی لیکن وہ ایسا کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ انہوں نے کہا امریکہ کو ''صورتحال پڑھنا چاہیے‘‘ اور اس کیس کی پیروی چھوڑ دینا چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا، ''ہمیں ایک خاندان کے طور پر راحت ملی ہے لیکن ایسا کب تک چل سکتا ہے؟ یہ معاملہ شرمناک ہے اور یہ جولیان کی صحت کوبہت زیادہ نقصان پہنچا رہا ہے۔‘‘ اسانج نے امریکہ میں قانونی کارروائی سے بچنے کے لیے سات سال تک لندن میں ایکواڈور کے سفارت خانے میں پناہ لیے رہنے کے بعد گزشتہ پانچ سال ایک برطانوی ہائی سکیورٹی جیل میں گزارے ہیں۔
وکی لیکس کے بانی آج ہونے والی سماعت کے دوران عدالت میں موجود نہیں تھے۔ ان کے وکیل نے کہا کہ وہ صحت سے متعلقہ وجوہات کی بنا پر عدالت میں حاضر نہ ہو سکے۔
ش ر⁄ م م (اے ایف پی، روئٹرز)