وکی لیکس کا بانی پھر خبروں میں، سویڈن کی اسانج سے پوچھ گچھ
11 اگست 2016آسٹریلیا کے شہری جولین اسانج نے سویڈن کی جانب سے گرفتاری سے بچنے کے لیے برطانوی دارالحکومت لندن میں ایکواڈور کے سفارت خانے میں پناہ لے رکھی ہے۔ ایکواڈور کی وزارتِ خارجہ کے مطابق ’آنے والے ہفتوں میں‘ سویڈن کے ایک جج کو لندن میں ایکواڈور کے سفارت خانے میں داخل ہونے کی اجازت دی جائے گی تاکہ وہ پنتالیس سالہ جولین اسانج کا بیان لے سکیں۔
ابھی اس ملاقات کے لیے کسی تاریخ کا تعین نہیں کیا گیا ہے کیونکہ سویڈن کا متعلقہ پراسیکیوٹر آج کل چھٹی پر ہے۔ اسانج کے وکلاء نے اس معاملے میں اس تازہ پیشرفت کا خیر مقدم کیا ہے۔
اسانج 2010ء میں لگنے والے جنسی زیادتی کے الزامات کے سلسلے میں سویڈن کو مطلوب ہیں لیکن سویڈن کی طرف سے اپنی گرفتاری سے بچنے کے لیے وکی لیکس کے بانی نے گزشتہ چار سال سے بھی زیادہ عرصے سے لندن میں ایکواڈور کے سفارت خانے میں پناہ لے رکھی ہے۔
اسانج اپنے خلاف لگائے گئے الزامات کی صحت سے انکار کرتے چلے آ رہے ہیں۔ اسانج کے مطابق جس جنسی تعلق کے لیے اُن پر ’جنسی زیادتی‘ کا الزام لگایا گیا ہے، وہ فریقین کی مرضی سے عمل میں آیا تھا۔ اسانج کے مطابق ان الزامات کے پیچھے دراصل سیاسی محرکات کارفرما ہیں، جن کا مقصد اُن کے اُس کردار کے لیے انتقام لینا ہے، جو اُنہوں نے وِکی لیکس کے پلیٹ فارم سے ایسی خفیہ دستاویزات افشا کرنے میں ادا کیا ہے، جو بہت سی حکومتوں اور عہدیداروں کے لیے شرمندگی کا باعث بنی ہیں۔
جولین اسانج کو چند سال پہلے اہم سفارتی ’کیبلز‘ منظر عام پر لانے کی وجہ سے عالمی شہرت ملی تھی۔ اسانج کو، جنہیں ایکواڈور کے لندن کے سفارتی مشن میں رہتے اب پانچواں سال شروع ہو چکا ہے، اس سال فروری میں ایک اہم کامیابی ملی تھی، جب من مانی گرفتاری سے متعلق اقوام متحدہ کا ایک ورکنگ گروپ اس نتیجے پر پہنچا تھا کہ سویڈن اور برطانیہ نے اسانج کے بنیادی حقوق کو پامال کیا ہے۔
ایکواڈور کا شروع سے موقف یہ رہا ہے کہ وہ اسانج کو سویڈش حکام کی تحویل میں دینے کے لیے تیار ہے، بشرطیکہ سٹاک ہولم حکومت یہ ضمانت دے کہ اسانج کو آگے امریکا کے حوالے نہیں کیا جائے گا، جہاں اُن کے خلاف 2010ء میں امریکا کی پانچ لاکھ سفارتی ’کیبلز‘ کے افشا کے الزام میں مقدمہ چلنے کا امکان ہو سکتا ہے۔
دوسری جانب ایکواڈور کا کہنا ہے کہ وہ اپنے 2012ء کے اس وعدے پر بدستور قائم ہے کہ ’سیاسی تعاقب کے خدشات کے باعث‘ جولین اسانج کو سیاسی پناہ دی جا سکتی ہے۔