جولیان اسانج کی ایکواڈور کے سفارت خانے میں پناہ کے تین سال
19 جون 2015لندن سے جمعہ انیس جون کے روز موصولہ نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ آسٹریلوی شہری جولیان اسانج کی سویڈن کے قومی دفتر استغاثہ کے ماہرین کی ایک ٹیم کے ساتھ جس ملاقات کا کافی عرصے سے انتظار کیا جا رہا تھا، وہ اسی ہفتے ہونا تھی لیکن خود اسانج کے دعووں کے مطابق یہ ملاقات اچانک منسوخ کر دی گئی۔
اسانج کے ساتھ، جنہیں سویڈن میں اپنے خلاف جنسی زیادتی کے مقدمات کا سامنا ہے، سویڈش پراسیکیوٹرز کی ایک ٹیم کی ملاقات کی اس منسوخی کے بارے میں خود سٹاک ہوم میں پراسیکیوٹرز نے ابھی تک کچھ نہیں کہا۔ تاہم اس ملاقات یا ’تفتیشی انٹرویو‘ کے بارے میں اسانج نے یہ کہا کہ سویڈش حکام کی یہ محض ’پبلک ریلیشنز کی ایک کوشش‘ تھی۔
اسانج کو سویڈن میں اپنے خلاف دو خواتین کی طرف سے جنسی نوعیت کے الزامات کے تحت دائر کردہ مقدمات کا سامنا ہے اور اسی لیے وہ سویڈش حکام کو مطلوب ہیں۔ ان میں سے ایک مقدمے میں ایک خاتون نے دعویٰ کر رکھا ہے کہ اسانج نے ان پر جنسی حملہ کیا تھا جبکہ دوسرے مقدمے میں متعلقہ خاتون کا دعویٰ ہے کہ وکی لیکس کے بانی اور عالمگیر شہرت کے حامل اسانج نے انہیں مبینہ طور پر ریپ کیا تھا۔
اسانج نے شروع میں برطانیہ میں سیاسی پناہ کی درخواست دی تھی، جو مسترد کر دی گئی تھی۔ اس کے بعد اسی بارے میں ان کی اپیل بھی رد ہو گئی تو برطانیہ سے ملک بدر کر کے سویڈن بھیجے جانے کے خطرے کی بناء پر انہوں نے لندن میں ایکواڈور کے سفارت خانے میں پناہ لے لی تھی۔
جون 2012ء سے برطانوی دارالحکومت میں قائم ایکواڈور کے سفارت خانے میں پناہ گزین اور اس وقت 43 سالہ اسانج ماضی میں کمپیوٹر ہیکر بھی رہ چکے ہیں اور ان کی ویب سائیٹ وکی لیکس نے امریکی خفیہ اداروں اور قومی محکموں کی ہزارہا خفیہ دستاویزات منظر عام پر لا کر دنیا بھر میں تہلکہ مچا دیا تھا۔
جولیان اسانج کو، جو اپنے خلاف سویڈن میں قائم مقدمات کو جھوٹے قرار دیتے ہیں اور کسی بھی خاتون کے ساتھ کی جانے والی کسی جنسی زیادتی یا اسی طرح کے کسی بھی دوسرے جرم کی نفی کرتے ہیں، خدشہ ہے کہ انہیں برطانیہ سے ملک بدر کر کے سویڈن بھیجنا محض ایک بہانہ ہے اور سویڈن سے انہیں ملک بدر کر کے امریکا بھجوا دیا جائے گا۔
اس کا سبب یہ ہے کہ اسانج امریکا کو بھی مطلوب ہیں، جہاں ان کے خلاف امریکا کی قومی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے کے الزامات کے تحت مقدمات درج ہیں۔ وہ ابھی تک اس لیے لندن میں ایکواڈور کے سفارت خانے سے باہر نہیں نکلے کہ ان کی رائے میں انہیں لندن سے سٹاک ہوم کے راستے آخرکار امریکا پہنچا دیا جائے گا تاکہ واشنگٹن میں ان کے خلاف خفیہ فوجی اور سفارتی دستاویزات غیر قانونی طور پر شائع کرنے کے الزام میں مقدمہ چلا کر انہیں سزا سنائی جا سکے۔
اے ایف پی کے مطابق ایکواڈور کے سفارت خانے میں مقیم اسانج نے اس بات کی مذمت کی ہے کہ سویڈش پراسیکیوٹرز نے ان سے بدھ سترہ جون کے روز جو ملاقات کرنا تھی، وہ عین آخری وقت پر بغیر کسی وجہ کے منسوخ کر دی گئی۔