’جوہری کاروبار‘ سات پاکستانی کمپنیوں پر امریکی پابندی
26 مارچ 2018نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق امریکی ’بیورو آف انڈسٹری، سکیورٹی اینڈ کامرس‘ نے اپنی پانبدیوں سے متعلق اپنی نئی فہرست میں سات ایسی پاکستانی تجارتی کمپنیوں کو شامل کیا ہے، جن پر جوہری ٹیکنالوجی کی تجارت میں ملوث ہونے کے شبہات ہیں۔
امریکی حکومت کی ویب سائٹ پر جاری کردہ بیان کے مطابق، ’’امریکی حکومت کے تجزیے کے مطابق یہ کمپنیاں ملکی سلامتی اور خارجہ پالیسی کے منافی اقدامات میں ملوث تھیں۔‘‘
چین کی طرف سے پاکستان کو میزائل ٹریکنگ سسٹم کی فراہمی
روئٹرز نے اس حوالے سے پاکستانی حکام کا موقف جاننے کی کوشش کی تاہم فوری طور پر اسلام آباد کی جانب سے کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔ پاکستان اور امریکا کے تعلقات گزشتہ کچھ برسوں سے کشیدہ چلے آ رہے ہیں جن میں رواں برس کے آغاز سے ہی مزید کشیدگی دیکھی جا رہی ہے۔
امریکی کامرس کے ادارے کی اس فہرست میں شامل ہونے والی کمپنیوں کے اثاثے منجمد نہیں کیے جاتے تاہم اس فہرست میں شامل کمپنیوں کو امریکا میں کاروبار کرنے کے لیے خصوصی اجازت نامہ حاصل کرنا پڑتا ہے۔
امریکی حکام نے جن پاکستانی کمپنیوں کو اس فہرست میں شامل کیا ہے وہ زیادہ معروف نہیں ہیں۔ روئٹرز نے ان سے بھی رابطے کی کوشش کی تاہم انہوں نے بھی فی الحال کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
ماضی میں پاکستانی حکام پر شمالی کوریا کو جوہری ٹیکنالوجی غیر قانونی اور خفیہ طور پر منتقل کرنے کے الزامات کا سامنا بھی رہا ہے۔ پاکستانی جوہری سائنسدان ڈاکٹر عبد القدیر خان نے سن 2004 میں شمالی کوریا کو جوہری راز فروخت کرنے کا اعتراف بھی کیا تھا، جب کہ سن 2008 میں اقوام متحدہ کے جوہری واچ ڈاگ نے کہا تھا کہ ’قدیر نیٹ ورک‘ نے ایران، لیبیا اور شمالی کوریا میں جوہری ہتھیاروں کے بلیو پرنٹ اسمگل کیے تھے اور یہ نیٹ ورک چودہ ممالک میں سرگرم تھا۔
پاکستان نے سن 2016 میں نیوکلر سپلائی گروپ (این ایس جی) کی رکنیت کے حصول کی درخواست دی تھی جس پر ابھی تک کچھ خاص پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستانی کمپنیوں پر ان تازہ پابندیوں کے بعد اسلام آباد کی این ایس جی میں شمولیت میں مزید مشکلات پیش آ سکتی ہیں۔
ش ح/ ع ت (روئٹرز)