جوہری ہتھیاروں میں کمی کے بجائے دوبارہ اضافہ، سپری کی تنبیہ
13 جون 2022یہ بھی بین الاقوامی سطح پر جوہری ہتھیاروں کے حصول کی دوڑ میں تیزی ہی کا نتیجہ ہے کہ اب ایٹمی اسلحے کی مخالفت کرنے والے کارکن اپنی جدوجہد میں اکیلے رہتے جا رہے ہیں۔ دیرپا امن کے قیام کے حامی تراسی سالہ روڈیگر لانسیلے ہر منگل کے روز اپنی گاڑی میں سوار ہو کر جرمنی کے مغربی شہر بیُوشل میں وفاقی جرمن فوج کے ایک فضائی اڈے تک جاتے ہیں اور وہاں اس ایئر بیس کے مرکزی دروازے کے سامنے اپنی کیمپنگ کے لیے استعمال ہونے والی کرسی پر بیٹھ کر جوہری ہتھیاروں کے خلاف احتجاج کرتے ہیں۔ انہوں نے ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو اپنے اس منفرد طرز احتجاج کا مقصد یہ بتایا: ''بیُوشل میں ذخیرہ کردہ ہتھیار وہاں سے ہٹا کر تلف کیے جانا چاہییں۔‘‘
بیُوشل میں ذخیرہ کردہ بیس ایٹم بم
جرمنی میں بیُوشل کی ایئر بیس پر امریکہ کے 20 ایسے ایٹم بم ذخیرہ کیے گئے ہیں، جنہیں کسی ایٹمی حملے کی صورت میں جرمن پائلٹ اپنے جنگی طیاروں کے ذریعے ان کے اہداف پر گرا سکتے ہیں۔ روڈیگر لانسیلے کا کہنا ہے کہ وہ اسی 'نیوکلیئر شیئرنگ‘ کے خلاف گزشتہ 20 برسوں سے احتجاج کر رہے ہیں۔
جوہری ہتھیاروں کے خلاف دفاع کا یورپی نظام کیسے کام کرتا ہے؟
صرف چھ ماہ پہلے تک ایسا لگتا تھا کہ جرمنی میں عام شہریوں کی اکثریت لانسیلے جیسے امن کے سرگرم حامیوں کی ہم خیال تھی۔ گزشتہ عام انتخابات کے بعد مرکز سے بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والے سوشل ڈیموکریٹس، ماحول پسندوں کی گرین پارٹی اور ترقی پسند فری ڈیموکریٹس نے جب مل کر حکومت تشکیل دی، تو چانسلر اولاف شولس کی قیادت میں برلن میں نئی وفاقی حکومت کا ہدف تھا: ''جرمنی کو جوہری ہتھیاروں سے پاک ہونا چاہیے۔‘‘
روسی یوکرینی جنگ نے سب کچھ بدل دیا
اس سال فروری کے اواخر میں روسی صدر پوٹن نے جب ملکی افواج کو یوکرین پر چڑھائی کا حکم دیا، تو اس کے بعد شروع ہونے والی جنگ ابھی تک ختم نہیں ہو سکی۔ اس دوران جب صدر پوٹن نے جوہری ہتھیاروں کے استعمال کی دھمکی بھی دے دی، تو جیسے جوہری تخفیف اسلحہ کی رہی سہی امید بھی دم توڑ گئی۔
ایٹمی جنگ کا خطرہ: کونسے ممالک جوہری ہتھیار استعمال کرنے کی دھمکی دے چکے ہیں؟
جرمن نشریاتی ادارے اے آر ڈی کی طرف سے کرائے گئے ایک حالیہ سروے کے مطابق 52 فیصد جرمن شہری اس بات کے حامی ہیں کہ جرمنی میں امریکی جوہری ہتھیار موجود رہنا چاہییں۔ اس سروے کے لیے 30 مئی سے یکم جون تک کے تین دنوں میں 1300 سے زائد جرمن باشندوں کی رائے لی گئی۔ نصف سے زائد رائے دہندگان نے اپنے ملک میں آئندہ بھی جوہری ہتھیاروں کی موجودگی کی حمایت کی۔ اس سے قبل 2021ء میں کرائے گئے سروے میں ایسے رائے دہندگان کی شرح صرف 14 فیصد رہی تھی۔
سوال یہ ہے کہ کیا جرمن باشندوں نے اب ایٹم بموں کی حمایت کرنا شروع کر دی ہے؟ روڈیگر لانسیلے کے مطابق لگتا ایسے ہی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میں اپنے احتجاج کے دوران اپنی کرسی کے ساتھ ہمیشہ ایک دوسری کرسی خالی رکھتا ہوں، تاکہ وہاں آنے والے افراد کو اپنے ساتھ بٹھا کر بات چیت کی دعوت دے سکوں۔ اب تک تو ایسا نہیں ہوا کہ کوئی میرے پاس آ کر بیٹھا ہو اور اس نے کہا ہو کہ ہاں، آپ درست کہتے ہیں۔‘‘
جوہری دوڑ اور نئے ہتھیار
سال 2023ء کے آغاز سے جرمنی میں بیُوشل کے مقام پر امریکی جوہری ہتھیاروں کو بدلنے کا عمل شروع ہو جائے گا۔ تب وہاں اب تک موجود ہتھیاروں کے مقابلے میں زیادہ جدید B61-12 طرز کے جوہری ہتھیار ذخیرہ کیے جائیں گے۔ اس طرز کے نئے ایٹم بم نہ صرف اپنے ہدف تک پہنچنے کے لیے گائیڈڈ ہوں گے بلکہ ان کی ممکنہ ہلاکت خیزی کا دائرہ بھی بڑا وسیع اور متنوع ہو گا۔
پاکستان اور بھارت کے مابین جوہری تنصیبات اور قیدیوں کی فہرست کا تبادلہ
یہ نئے امریکی ایٹم بم 0.3 سے لے کر 340 کلو ٹن تک کی طاقت کے حامل ہوں گے۔ ان کے مقابلے میں امریکہ نے دوسری عالمی جنگ کے دوران جاپان کے شہر ناگاساکی پر 'فیٹ مین‘ نامی جو ایٹم بم گرایا تھا، اس کی طاقت صرف 25 کلو ٹن تھی۔
امریکہ اپنے جوہری ہتھیاروں کو جدید سے جدید تر بنانے کے لیے سالانہ تقریباﹰ 10 بلین ڈالر خرچ کر رہا ہے۔ جرمنی، جو خود تو کوئی ایٹم بم نہیں بناتا، انتہائی جدید اور F-35 طرز کے ان امریکی جنگی طیاروں کی خرید پر اربوں یورو خرچ کر رہا ہے، جن کی مدد سے یہ نئے امریکی ایٹم بم اپنے اہداف کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔
عشروں کی جوہری تخفیف اسلحہ کے بعد دوبارہ اضافہ
سویڈن میں قائم سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ نے اپنی پیر 13 جون کو جاری کردہ ایک تازہ رپورٹ میں عالمی سطح پر جوہری ہتھیاروں کی ایک نئی دوڑ کے خلاف خبردار کیا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق عشروں تک اپنے جوہری ہتھیاروں میں کمی کے بعد اب تمام ایٹمی طاقتیں اپنے نیوکلیئر وارہیڈز پر اور ان کے استعمال کے لیے درکار ڈلیوری سسٹمز پر بہت زیادہ مالی وسائل خرچ کر رہی ہیں۔
جرمنی میں مزید تین جوہری ری ایکٹر بند کر دیے گئے
اس عسکری سرمایہ کاری میں طویل فاصلے تک مار کرنے والے ان میزائلوں، جنگی بحری جہازوں، آبدوزوں اور جنگی طیاروں کا حصول بھی شامل ہے، جن کے ذریعے جوہری ہتھیاروں سے حملے کیے جا سکتے ہوں۔
سب سے زیادہ جوہری ہتھیار روس اور امریکہ کے پاس
سپری (SIPRI) کے محقق ہانس کرسٹینسن اور ان کے ساتھیوں نے جوہری ہتھیاروں سے لیس ممالک کے پاس موجود ایٹمی اسلحے اور ان میں کی جانے والی سرمایہ کاری کے بارے میں برسوں تک چھان بین کی ہے۔ ہانس کرسٹینسن کہتے ہیں کہ اس وقت پوری دنیا میں 12 ہزار 705 ایٹمی ہتھیار موجود ہیں، جن میں سے 90 فیصد سے زائد صرف دو ممالک روس اور امریکہ کے پاس ہیں۔
ہانس کرسٹینسن امریکی سائنسدانوں کی فیڈریشن کے نیوکلیئر انفارمیشن پروجیکٹ کے ڈائریکٹر بھی ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ''ایٹمی طاقتیں اپنے اپنے جوہری ہتھیاروں کو جدید تر بنانے میں مگن ہیں۔ وہ نہ صرف اپنے ہاں پہلے سے موجود ایسے ہتھیاروں کی نئی ورائٹی تیار کر رہی ہیں بلکہ ساتھ ہی نت نئی اقسام کے نئے ہتھیار بھی تیار کیے جا رہے ہیں۔ ان سب ممالک نے اپنے جوہری ہتھیاروں کو پہلے سے کہیں زیادہ اہمیت دینا شروع کر دی ہے۔‘‘
چین 'ٹاپ اٹامک لیگ‘ میں شمولیت کا خواہش مند
عالمی سطح پر ایسے ہتھیاروں کی دوڑ میں جو ایک ملک باقی سب ایٹمی طاقتوں سے مختلف اور تیز رفتاری سے کام کرتا نظر آتا ہے، وہ چین ہے۔ کرسٹینسن کے مطابق، ''چین میں جوہری ہتھیاروں کے حوالے سے نظر آنے والی منفرد پیش رفت ایسے ہتھیاروں کی مجموعی تعداد کے لحاظ سے انتہائی قابل ذکر ہے۔ بیجنگ حکومت کے ماضی کے ایٹمی ہتھیاروں سے متعلق فیصلوں کو سامنے رکھا جائے، تو ایسی کسی پیش رفت کی پہلے کوئی مثال نظر نہیں آتی۔‘‘
ڈاکٹرعبدالقدیر خان: ایک عہد کا اختتام
ہانس کرسٹینسن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''چین جوہری ہتھیاروں کے حوالے سے یہ سب کچھ کیوں کر رہا ہے، اس بارے میں ہم قطعی لاعلم اس لیے ہیں کہ بیجنگ حکومت ملکی ایٹمی ہتھیاروں کے بارے میں کبھی کوئی بات نہیں کرتی۔‘‘
سیٹلائٹ تصاویر کی مدد سے حاصل ہونے والی معلومات کی بنیاد پر یہ ثابت ہو چکا ہے کہ گزشتہ صرف دو برسوں میں چین کے مختلف صحرائی علاقوں میں بیلسٹک میزائلوں کی تقریباﹰ 300 ذخیرہ گاہیں تعمیر کی جا چکی ہیں۔ ہانس کرسٹینسن کے الفاظ میں، ''یہ بات یقینی ہے کہ چینی صدر شی جن پنگ چاہتے ہیں کہ چینی فوج عالمی معیار کی فوج ہو اور بظاہر اس سے ان کی مراد ایسی فوج ہے جو جدید جوہری ہتھیاروں سے بھی مسلح ہو۔‘‘
پاکستان کی بھارت پر معمولی برتری
سپری کی سالانہ رپورٹ کے مطابق اس سال جنوری تک روس کے پاس 4477 جوہری ہتھیار تھے اور امریکہ کے پاس 3708 وارہیڈز۔ ان دو سب سے بڑی ایٹمی طاقتوں کے بعد اپنے جوہری ہتھیاروں کی تعداد کے لحاظ سے چین 350 وارہیڈز کے ساتھ تیسرے، فرانس 290 ایٹمی ہتھیاروں کے ساتھ چوتھے اور برطانیہ اپنے 180 نیوکلیئر وارہیڈز کے ساتھ پانچویں نمبر پر تھا۔
روس نے نئی ایٹمی آبدوزوں کی تعمیر شروع کر دی
جنوبی ایشیا کے دو روایتی حریف ہمسایہ ممالک پاکستان اور بھارت بھی اعلانیہ ایٹمی طاقتیں ہیں۔ جوہری ہتھیاروں کی تعداد کے معاملے میں اسلام آباد کو نئی دہلی پر معمولی برتری حاصل ہے۔ سپری کے مطابق پاکستان کے پاس 165 نیوکلیئر وارہیڈز ہیں اور بھارت کے پاس 160۔
آٹھویں نمبر پر اسرائیل کا نام آتا ہے، جس کے پاس 90 جوہری ہتھیار موجود ہیں جبکہ کمیونسٹ شمالی کوریا کے پاس موجود ایٹمی ہتھیاروں کی تعداد کا اندازہ 20 لگایا جاتا ہے۔
پیٹر ہِلّے (م م / ب ج)