ڈاکٹرعبدالقدیر خان: ایک عہد کا اختتام
10 اکتوبر 2021
ڈاکٹر عبدالقدیرجہاں پاکستان میں ہیرو اور محسن پاکستان مانے جاتے تھے وہیں انہیں مغربی دنیا کی طرف سے تنقید کا بھی سامنا تھا۔ انہوں نے مخلتف بین الاقوامی اداروں سے تعلیم حاصل کر کے اور اپنے شعبے میں مہارت حاصل کرنے کے بعد پاکستان کے جوہری ادارے میں شمولیت اخیتار کی تھی۔ جس جوہری پرواگرام میں انہوں نے شرکت کی اور بعد میں پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے میں اپنا کردار ادا کیا، اسے مغربی دنیا نے اسلامی بم کا نام دیا۔
جنون کی حد تک پاکستان سے محبت
پاکستان کے نامور سائنس دان ڈاکٹر ثمر مبارک مند کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر عبدالقدیر جنون کی حد تک پاکستان سے محبت کرتے تھے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،'' ڈاکٹر عبدالقدیر بہت محب وطن شخصیت تھے اور انہیں پاکستان سے جنون کی حد تک محبت تھی۔ پاکستان کے جوہری پروگرام میں تین اداروں کا اہم ہاتھ تھا اس میں سے ایک ادارے کے سربراہ ڈاکٹر عبدالقدیر تھے جن کا اپنے ماتحتوں سے انتہائی شفیقانہ رویہ تھا۔ انہیں جنون کی حد تک پاکستان سے محبت تھی وہ انتہائی محب وطن تھے اس کے علاوہ فلاحی کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے اور ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے کئی ا سکول، ہسپتال اور مسجدیں بنوائی تھیں۔‘‘
پاک بھارت تنازعہ: ایٹمی ہتھیاروں کے ’تعمیری‘ کردار کی امید
ان کا مزید کہنا تھا،'' ڈاکٹرعبدالقدیرکی پیشہ ورانہ مہارت بھی قابل ستائش تھی۔ وہ بنیادی طور پر میٹیلرجیکل انجینیئر تھے لیکن ایک بہترین ٹیکنیکل مینیجر بھی تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنے ادارے کو انتہائی عمدہ طریقے سے چلایا اور جونیئر سائنسدانوں کی حوصلہ افزائی کی۔ ان کی رہنمائی کی اور ملک کے سائنسدانوں نے ایک ٹیم کی طرح دن رات محنت کی اور پاکستان کو کامیابی سے ہمکنار کیا جس کی وجہ سے آج ہمارا دفاع ناقابل تسخیر ہے۔‘‘
تنازعات
جہاں انیس سو اٹھانوے میں ڈاکٹر عبدالقدیر قوم کے ہیرو کے طور پر ابھرے وہیں جنرل مشرف کے دور میں انہیں ہزیمت کا سامنا بھی کرنا پڑا اور ٹی وی پر آکرجوہری پھیلاؤ کے حوالے سے قوانین اور اصولوں کی خلاف ورزی کا انہیں اعتراف کرنا پڑا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر نے اس اعتراف کے بعد زیادہ تر زندگی گوشہ تنہائی میں گزاری اور یہاں تک کہ انہوں نے سماجی تقریبات میں بھی زیادہ شرکت نہیں کی۔ کچھ برس پہلے انہوں نے ایک سیاسی جماعت بھی بنانے کی کوشش کی لیکن کیونکہ وہ باہر زیادہ نکل نہیں سکتے تھے، ان کی بنائی ہوئی سیاسی جماعت زیادہ چل نہ سکی۔
پاکستانی جوہری اثاثے بالکل محفوظ، نیشنل کمانڈ اتھارٹی
اس کے علاوہ ڈاکٹر عبدالقدیر پر کچھ حلقوں کی طرف سے اس وقت بھی تنقید ہوئی جب انہوں نے پاکستان میں ایک شخص کے اس دعویٰ کو سراہا کے وہ ایک ایسی کار بنا سکتا ہے، جو پانی سے چلائی جا سکتی ہے۔
الزامات
ناقدین کا خیال ہے کہ گو کہ ڈاکٹر عبدالقدیر پاکستان کے ہیرو تھے لیکن ان کے کچھ اقدامات کی وجہ سے ملک کو نقصان بھی ہو سکتا تھا۔ کراچی سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار ڈاکٹر توصیف احمد خان کا کہنا ہے کہ جوہری پھیلاؤ کے حوالے سے ان کا اعتراف پاکستان کے لیے تباہ کن ہو سکتا تھا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،'' ان پر یہ الزام لگایا گیا کہ انہوں نے ایران، لیبیا اور شمالی کوریا کے علاوہ کچھ افریقی ممالک کو جوہری ہتھیاروں کے حوالے سے چیزیں فروخت کی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مشرف کے دور میں انہیں اس بات کا اعتراف کرنا پڑا اور جس کی وجہ سے ملک کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔‘‘
ملک سے بدعنوانی دور کرو: ڈاکٹر عبد القدیر خان کی مہم کا آغاز
ڈاکٹر توصیف کا کہنا ہے کہ تاہم ڈاکٹر عبدالقدیر نے ہمیشہ ان الزامات کی تردید کی۔ '' ان کے خیال میں مشرف نے ان پر بے جا الزامات لگوائے تھے۔ اسی لیے وہ ہمیشہ مشرف کے ناقد رہے اور بعد میں کئی بار انہوں نے مشرف پر کھل کا تنقید بھی کی تھی۔‘‘
پاکستان اور بھارت: نئی ایٹمی دوڑ کا امکان
کالموں کا سلسلہ
ڈاکٹر عبدالقدیر باقاعدگی سے کالمز بھی لکھتے تھے۔ ان کے یہ کالمز انگریزی روزنامہ دی نیوز اور اردو روزنامہ جنگ میں چھپتے تھے۔ ان کالموں میں ان کا موضوع زیادہ تر اسلامی تاریخ اور مذہب ہوتا تھا۔ ان کو پاکستان میں کئی حلقے دائیں بازو کے ہمدرد کے نام سے جانتے تھے لیکن ڈاکٹر توصیف احمد کا خیال ہے کہ ڈاکٹر قدید ذوالفقار علی بھٹو کے قریب تھے۔ ان کے بقول،'' در حقیقت انہیں بھٹو ہی پاکستان لائے تھے اور انہوں نے ہی ڈاکٹر عبدالقدیر کو بہت سارے اختیارات دے کر ملک کے ایٹمی پروگرام کو شروع بھی کروایا تھا۔ ڈاکٹر قدید نے بھٹو کی جان بچانے کے لیے بھی کوششیں کی تھیں۔ تو وہ مذہبی ضرور تھے لیکن ان کا جماعت اسلامی یا کسی بھی مذہبی جماعت سے نہ تعلق تھا اور نہ ہی مذہبی جماعتوں کیساتھ انہیں کوئی ہمدردی تھی۔‘‘
ایٹمی راز: ’شمالی کوریا نے پاکستانی فوجی افسران کو رشوت دی‘
آخری دور
ڈاکٹر عبدالقدید نے اپنی زندگی کے آخری سال زیادہ تر اپنے گھر میں ہی گزارے۔ انہوں نے بعض اوقات حکام اور عدالتوں سے یہ گزارش بھی کی کہ ان کو سماجی تقریبات میں شرکت کی اجازت دی جائے لیکن حکام نے سکیورٹی کی وجوہات کی بنا پر ان کی نقل و حرکت کو گزشتہ کئی برسوں سے محدود رکھا ہوا تھا۔ گو کہ ڈاکٹر عبدالقدیر باقاعدگی سے کالمز لکھ رہے تھے۔ گزشتہ کئی برسوں سے ان کا ملکی یا بین الاقوامی میڈیا سے کوئی رابطہ نہیں تھا۔ انہوں نے اپنی زندگی کے آخری ایام علالت میں گزارے۔‘‘
عبدالستار/ اسلام آباد