1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جڑانوالہ کا واقعہ: مسیحی برادری خوف کا شکار

17 اگست 2023

فیصل آباد کی تحصیل جڑانوالہ میں گرجوں پر حملے اور نجی ملکیت کی توڑ پھوڑ نے مسیحی آبادی کو خوف میں مبتلا کر دیا ہے۔ مسیحی تنظیمیں اور کارکنان یہ پوچھ رہے ہیں کہ آخر پاکستان کے غیر مسلم شہریوں کو کب تحفظ ملے گا؟

https://p.dw.com/p/4VGYX
Pakistan | Angriffe auf Kirchen in Jaranwala
تصویر: Aamir Qureshi/AFP/Getty Images

 دو مسیحی مردوں پر توہین مذہب اور توہین رسالت کے الزامات لگانے کے بعد بدھ کو ایک مجمع نے جڑانوالہ کے علاقے 'کرسچین کالونی‘  میں چرچوں پہ حملے  کیے جس سے جڑانوالہ اور دیگر علاقوں کے مسیحیوں میں خوف وہراس پیدا ہوگیا ہے. مسیحی تنظیمیں اور کارکنان یہ پوچھ رہے ہیں کہ آخر پاکستان کے غیر مسلم شہریوں کو کب تحفظ ملے گا؟

سخت سزا کا عندیہ

 پنجاب حکومت نے اس واقعے کو ایک سازش قرار دیا ہے۔ پنجاب حکومت کے ترجمان عامر میر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' جڑانوالہ میں قرآن کی بے حرمتی کے افسوس ناک واقعے کی ابتدائی تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ یہ مکروہ عمل ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت کیا گیا تاکہ عوامی جذبات کو ابھار کر فساد پھیلایا جائے اور امن و امان خراب کیا جا سکے.‘‘

فیصل آباد کی تحصیل جڑانوالہ
جڑانوالہ میں قائم چرچتصویر: K.M. Chaudary/AP Photo/picture alliance

عامر میر کے مطابق امن و امان خراب کرنے والے درجنوں افراد کو حراست میں لیا گیا ہے، ’’قرآن کی بے حرمتی کے افسوسناک واقعے کی تحقیقات تیزی سے جاری ہیں اور اس واقع میں سازش کا عنصر نمایاں نظر آتا ہے۔ اگرکوئی بھی شخص قانون کو ہاتھ میں لینے کی کوشش کرے گا، تو اسے فوری طور پرگرفتار کر لیا جائے گا۔ واقعے کی تحقیقات مکمل ہونے کے بعد ملوث افراد کے خلاف سخت ترین کارروائی کی جائے گی۔‘‘

 نگران وزیر اعظم انوارالحق کاکٹرسمیت اس واقعے کی مذمت پی پی پی رہنما بلاول بھٹو زرداری، سابق وزیر اعظم شہباز شریف، مسلم لیگ ن کی رہنما مریم نواز اور دیگر سیاستدانوں نے بھی کی ہے جب کہ سوشل میڈیا پر یہ واقعے تمام حلقوں کی مذمت کی زد میں ہے۔

شدید غم وغصہ اور خوف

تاہم پاکستان کی مسیحی برادری ان حکومتی تسلیوں اور سیاست دانوں کے مذمتی بیانات سے مطمئن نظر نہیں آتے اور ان کے خیال میں غیر مسلم پاکستانیوں کے ساتھ ناروا سلوک کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے. اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی انسانی حقوق کی کارکن روبینہ بھٹی کا کہنا ہے کہ انتہا پسندوں کو کسی بھی سزا کا خوف نہیں ہے، اسی لیے وہ کئی برسوں سے نہ صرف مسیحی بلکہ دوسرے غیر مسلم پاکستانیوں کو بھی نشانہ بنا رہے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا, ”پوری کرسچین کمیونٹی میں بائبل اور کلیساؤں کی بے حرمتی پر شدید غم و غصہ ہے اور وہ خوف کا شکار بھی ہیں۔ اگر بے بسی کے عالم میں شکایت کرتے ہیں، تو کہا جاتا ہے کہ پاکستان کو بدنام کیا جا رہا ہے۔ لوگ بھول جاتے ہیں کہ یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ اس سے پہلے یوحنا آباد، گوجرہ، عیسی نگری اور کئی ایسے واقعات ہیں جس میں ہمیں ٹارگٹ کیا گیا۔‘‘

Pakistan | Angriffe auf Kirchen in Jaranwala
جڑانوالہ کلیسا نذر آتشتصویر: Fayyaz Hussain/REUTERS

یہ سلسلہ کب تک چلے گا

روبینہ بھٹی کا کہنا تھا کہ اس واقعے کے بعد پوری کمیونٹی میں سکیورٹی کے حوالے سے شدید تحفظات پائے جاتے ہیں. ”عموما ایسے واقعات کے بعد لوگ اپنے رشتہ داروں کے پاس دوسرے علاقوں میں چلے جاتے ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا کا یہ سلسلہ کب تک چلے گا۔‘‘

 روبینہ بھٹی کا خیال ہے کہ، ''جب تک توہین  رسالت اور توہین مذہب کے الزام لگانے والوں کو وہی سزا نہیں ملے گی، جو ملزم کو دی جاتی ہے اس وقت تک اس طرح کے واقعات ہوتے رہیں گے.‘‘

 

پولیس ایکشن کیوں نہیں لیتی

خیال کیا جاتا ہے کہ ایسے واقعات کے بعد عموماً مذہبی تنظیموں کے ارکان بڑے پیمانے پہ مسجدوں کے لاؤڈ اسپیکرز استعمال کر کے لوگوں کو اشتعال دلاتے ہیں. جڑانوالہ کے واقعے میں بھی یہ دیکھنے میں آیا کہ ایک شخص دھڑلے سے لوگوں کے مذہبی جذبات کو ابھار رہا ہے اور ان کو حملے پر اکسا رہا ہے لیکن پولیس خاموش رہی۔

تاہم کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ تحریک لبیکپاکستان  کی طرف سے ماضی میں پولیس والوں کے خلاف تشدد نے پولیس کا مورال کم کر دیا ہے. سینٹر فار سوشل جسٹس لاہور کے ایگزیکٹیو ڈائرکٹر اور سماجی کارکن پیٹرجیکب کا کہنا ہے کہ رینجرز اور آرمی کی تعیناتی وقتی طور پر سکیورٹی فراہم کر سکتی ہے لیکن بنیادی طور پر یہ پولیس کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس طرح کی سکیورٹی فراہم کرے.

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا, ”جڑانوالہ میں حالات اب بھی کشیدہ ہیں اور جو لوگ علاقہ چھوڑ کر گئے ہیں وہ واپس آنے کے لیے تیار نہیں ہیں کیونکہ ان کو سکیورٹی کے حوالے سے خدشات لاحق ہیں. پولیس اس لیے غالباً اقدامات نہیں کر رہی کیونکہ ماضی میں جب اس نے انتہا پسند تنظیموں کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی تو ان پر بے پناہ تشدد کیا گیا۔‘‘

 

خوف ایک علاقے تک محددو نہیں

پیٹر جیکب کے مطابق خوف و ہراس صرف اس علاقے میں نہیں ہے جہاں یہ واقعہ رونما ہوا ہے۔ وہ کہتے ہیں، ''اس کے اثرات دوسرے علاقوں میں بھی ہیں. جڑانوالہ اور فیصل آباد میں مسیحی آبادی پوکٹس میں رہتی ہے اور ان کے ارد گرد ہر طرف مسلم اکثریت ہے، جس کی وجہ سے وہ اب بھی خوف کا شکار ہے۔‘‘

 

فیصل آباد کی تحصیل جڑانوالہ
جڑانوالہ میں متعدد گھروں پر حملےتصویر: K.M. Chaudary/AP Photo/picture alliance

’بھرپور تفتیش کی جائے‘

مائناریٹیزالائنس پاکستان کے چیئرمین اکمل بھٹی کا کہنا ہے کہ واقعے کے حوالے سے بہت ساری باتیں سامنے آ رہی ہیں۔ لٰہذا توہین رسالت اور توہین مذہب کے لگائے جانے والے ان الزامات کی بھرپور تفتیش ہونی چاہیے.‘‘ اکمل بھٹی نے مزید کہا، ''ہماری اطلاعات یہ ہیں کہ مرکزی ملزم راجہ عامر نے اپنے محلے کے ایک شخص یاسین کو چار لاکھ روپے دیے تھے جس کے عوض وہ باہر جانے کا بندوبست کروانا چاہتا تھا لیکن یاسین راجہ عامر کو باہر نہیں بھیجوا سکا اور جب راجہ نے پیسے کی واپسی کا مطالبہ کیا تو یاسین نے راجہ عامر پر یہ الزام لگوا دیا۔‘‘

اکمل بھٹی کے بقول کہا جا رہا ہے کہ ملزم نے قران کے اوراق پر چند جملے لکھے لیکن ''ملزم راجہ پڑھا لکھا نہیں ہے۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کس طرح اس طرح جملے لکھ سکتا ہے۔‘‘

 

روایتی بیانات

مسیحی برادری کے اراکین کا کہنا ہے کہ جب بھی اس طرح کے واقعات ہوتے ہیں تو حکومت روایتی بیانات دے دیتی ہے لیکن وہ ٹھوس اقدامات کرنے سے گریز کرتی ہے. کینیڈا میں مقیم  مسیحی کارکن ندیم جوزف کا کہنا ہے کہ توہین رسالت اورتوہین مذہب کے قوانین کا غلط استعمال ہو رہا ہے۔ حکومت اس کا سد باب کرنے میں ناکام ہے. انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''جب بھی اس طرح کا کوئی واقعہ ہوتا ہے، تو حکومت کہتی ہے کہ اس نے نوٹس لے لیا ہے۔ اگر حکومت نے ماضی میں اقدامات کیے ہوتے تو آج بائبل اور صلیب کی بے حرمتی نہیں ہو رہی ہوتی اور کلیساؤں پہ حملے نہیں ہوتے۔‘‘

واضح رہے کہ جڑانوالہ میں کل بروز بدھ دومسیحی مردوں پر توہین مذہب اور توہین رسالت کا الزام لگایا گیا تھا، جس کے بعد مساجد سے لاؤڈ اسپیکرز پر اعلان کیا گیا اور ایک مجمع نے  مختلف علاقوں میں مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والے شہریوں کی املاک اور کلیساؤں پر حملے کیے اور اشتعال انگیز نعرے لگائے.

مسیحی برادری کا دعوی ہے کہ چھوٹے بڑے ایک درجن سے زائد کلیساؤں کو مختلف علاقوں میں حملے کا نشانہ بنایا گیا جبکہ سرکاری ذرائع صرف چند چرچوں کی بے حرمتی کا اعتراف کر رہے ہیں. ڈی ڈبلیو کو مقامی پولیس کے ایک اہلکار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پہ بتایا کہ کچھ کلیساؤں پہ حملے ہوئے ہیں جبکہ کچھ مکانوں کو بھی نقصان پہنچایا گیا ہے.