1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا اسٹیبلشمنٹ غلطیاں دہرا رہی ہے

23 اکتوبر 2023

ن لیگ کے لیے جی ایچ کیو کی مبینہ حمایت اور پی ٹی آئی کی مخالفت کئی حلقوں میں یہ تاثر پیدا کر رہی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اپنی پرانی غلطیاں دہرا رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/4XuXf
Pakistan Lahore | Ex-Premierminister Nawaz Sharif aus Exil zurückgekehrt
تصویر: K.M. Chaudary/AP/picture alliance

نواز شریف نے اپنی آمد کے بعد لاہور میں ایک بہت بڑے جلسے سے خطاب کیا جبکہ تحریک انصاف کی ایک کارنر میٹنگ پر پولیس نے دھاوا بول کر 80 کے قریب کارکنان کو گرفتار کر لیا، جس سے کئی حلقوں میں یہ تاثر ابھر رہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ایک بار پھر صرف مرکزی دھارے کی ایک ہی سیاسی جماعت کی حمایت کر رہی ہے۔ ناقدین کا کہنا جی ایچ کیو کے اس مبینہ عمل سے ملک میں جمہوریت کو نقصان ہو سکتا ہے۔

 

واضح رہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی اس حمایت پر نہ صرف پاکستان تحریک انصاف اپنے تحفظات کا اظہار کر رہی ہے بلکہ ماضی میں نواز شریف کے قریب رہنے والی پاکستان پیپلز پارٹی بھی اسٹیبلشمنٹ اور نواز شریف کی اس قربتکو تنقید کا نشانہ بنا رہی ہے۔ پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے حال ہی میں اپنے بیانات میں ایسے اشارے دیے ہیں جس سے یہ واضح ہو رہا ہے کہ وہ نون لیگ اور جی ایچ کیو کی قربت پر نہ صرف پریشان ہیں بلکہ اس کو پاکستان کی جمہوریت کے لیے نقصان دے بھی سمجھتے ہیں کیونکہ ان کے خیال میں اس قربت کی وجہ سے انتخابات وقت پہ نہیں ہو پا رہے۔

مداخلت صرف دوہزار اٹھارہ میں ہی نہیں تھی

پاکستان میں یہ ایک عام تاثر ہے کہ 2018 کے انتخابات میں اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ نے تحریک انصاف کی کھل کر حمایت کی اور انتخابات کو بڑے پیمانے پر تحریک انصاف کے حق میں موڑنے میں اہم کردار ادا کیا لیکن اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار ایوب ملک کا کہنا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے ہمیشہ ہی کسی نہ کسی سیاسی جماعت کی اسی طرح حمایت کی ہے اور وہ آج بھی اسی طرح کی حمایت کر کے ماضی کی غلطیوں کو دہرا رہی ہے۔ ایوب ملک نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' 1988 میں اسٹیبلشمنٹ نے اسلامی جمہوری اتحاد بنایا۔ پھر 1996 میں نواز شریف کو دو تہائی اکثریت دلوا کر پیپلز پارٹی کی نشستوں کو بہت حد تک کم کر دیا۔ مشرف کے دور میں یہ حمایت پاکستان مسلم لیگ کیو اور ایم ایم اے کو دی گئی اور اب یہ حمایت پاکستان مسلم لیگ نون کو دی جا رہی ہے، جو جمہوریت کے لیے اچھا شگون نہیں ہے۔‘‘

 ایوب ملک کے مطابق تمام سیاسی جماعتوں کو متفق ہونا چاہیے کہ سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کی کوئی مداخلت برداشت نہیں کریں گی۔ ''اور انہیں فوج کو مجبور کرنا چاہیے کہ وہ اپنی آئینی حدود میں رہے۔ اس ہی سے جمہوری ارتقا ہوگا اور جمہوریت مضبوط ہوگی۔‘‘

پی ٹی آئی کو لیول کردیا گیا ہے

 جی ایچ کیو کی طرف سے مبینہ طور پہ دی جانے والی اس حمایت کے وجہ سے کئی حلقے یہ سوال بھی اٹھا رہے ہیں کہ کیا پاکستان تحریک انصاف کو لیول پلینگ فیلڈ میسر ہیں۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار حبیب اکرم کا کہنا ہے کہ لیول پلینگ فیلڈ تو دور کی بات ہے۔ اس وقت تو پاکستان تحریک انصاف کو بالکل لیول کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ایک طرف نواز شریف کو اتنا بڑا جلسہ کرنے کی اجازت دے دی گئی اور دوسری طرف تحریک انصاف کے کارکنان کو ایک چھوٹی سی کارنر میٹنگ بھی نہیں کرنے دی جا رہی۔‘‘

حبیب اکرم کے مطابق صورت حال یہ ہے کہ ابھی یہ بھی واضح نہیں کہ آیا پاکستان تحریک انصاف انتخابات میں حصہ بھی لے سکے گی یا نہیں۔ '' اور یہ کہ اگر وہ انتخابات میں حصہ لے گی تو اس کو نمائندے کیسے ملیں گے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ تحریک انصاف کو انتخابات لڑنے کی بھی اجازت نہیں دی جائے گی اور ایسا پاکستان کی تاریخ میں کبھی نہیں ہوا۔‘‘

حبیب اکرم کا دعویٰ تھا کہ پاکستان کے طاقتور حلقوں نے تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا اور اب بھی وہ اسی طرح کی غلطیاں دہرا رہے ہیں۔ '' لیکن اگر پاکستان تحریک انصاف کو انتخابات میں حصہ لینے کی آزادانہ طور پر اجازت نہیں دی جاتی، تو جو بھی حکومت آئے گی، اس کی بنیاد جعل سازی اور دھاندلی پر ہوگی، جس سے ملک میں مزید بحران آئیں گے۔‘‘

China Peking | Pakistans Premierminister Anwar-ul-Haq Kakar und Präsident Xi Jinping
نگران حکومت پر بھی الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ وہ اس بابت جانب داری دکھا رہی ہےتصویر: Huang Jingwen/Xinhua/picture alliance

انتخابات دھاندلیوں سے بھرے ہیں

اسلام اباد سے تعلق رکھنے والی تجزیہ نگار فریحہ ادریس کا کہنا ہے کہ بدقسمتی سے پاکستان کی تاریخ اسی طرح کے دھاندلی زدہ انتخابات سے بھری ہوئی ہے اور آنے والے انتخابات بھی اس سے مبرا نہیں ہوں گے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''پاکستان تحریک انصاف کے لیے کوئی لیول پلینگ فیلڈ نہیں ہے بلکہ کوشش یہ کی جا رہی ہے کہپارٹی کو ختم کر دیا جائے، جو ایک بہت بڑی غلطی ہے کیونکہ تمام حالیہ سرویز میں مقبولیت کے گراف میں پاکستان تحریک انصاف سب سے اگے ہے۔‘‘

نگراں حکومت جانب دار ہے

فریحہ ادریس کے مطابق نگراں حکومت اور پنجاب حکومت کھلم کھلا اپنے تعصب کا مظاہرہ کر رہی ہیں اور ان کا جھکاؤ ایک مخصوص جماعت کی طرف ہیں۔ '' جبکہ الیکشن کمیشن کسی بھی طرح کا کوئی بھی ایکشن لینے سے قاصر ہے اس طرح کے اقدامات آئین کی آرٹیکلز 14 اور 16 کی صریح خلاف ورزی ہے اس طرح کے اقدامات موجودہ حکومت کی ناکامی کے بھی عکاس ہیں جو سیاسی جماعتوں کو انتخابات سے پہلے لیول پلینگ فیلڈ نہیں دے رہی۔‘‘

جی ایچ کیو کی حمایت حاصل نہیں

تاہم پاکستان مسلم لیگ نواز اس تاثر کو رد کرتی ہے کہ اسے اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل ہے یا اسٹیبلشمنٹ اس کی حمایت کر کے ماضی کی غلطیوں کو دہرا رہی ہے۔ پارٹی کے ایک مرکزی رہنما اور سابق گورنر خیبر پختونخواہ اقبال ظفر جھگڑا کا کہنا ہے کہ میاں نواز شریف اصولوں پر کوئی سودے بازی نہیں کریں گے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اسٹیبلشمنٹ کو اس بات کا احساس ہو گیا ہے کہ نواز شریف اب بھی پاکستان کے سب سے مقبول رہنما ہیں اور ان کی مقبولیت کی جڑیں عوام میں ہیں۔ لہذا اسٹیبلشمنٹ مجبور ہوئی کہ وہ مسلم لیگ نواز سے رابطہ کریں تاکہ ملک کو بحرانوں سے نکالا جا سکے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم ان کی حمایت پر انحصار کر رہے ہیں یا وہ ہماری حمایت کررہے ہیں۔‘‘

اقبال ظفر جھگڑا نے اس بات کو واضح کیا کہ نواز شریف نے اپنا نظریہ اور اپنا بیانیہ ترک نہیں کیا ہے۔ ''ہم آج بھی ووٹ کو عزت دو کے بیانیے پر قائم ہیں اور اس بات کو اصولی سمجھتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کا سیاست میں کوئی کردار نہیں ہونا چاہیے۔ ''اگر اسٹیبلشمنٹ نے سیاست میں مداخلت کی تو نواز شریف اصولوں پہ سودے بازی نہیں کریں گے بلکہ آئین کی بالادستی کے لئے اپنا کردار ادا کریں گے۔‘‘