جی ٹوئنٹی کے اجلاس پر مالیاتی بحران کے سائے
3 نومبر 2011کن میں جمعرات کو بڑی اقتصادی طاقتوں کے گروپ جی ٹوئنٹی کے دو روزہ خصوصی اجلاس کے ساتھ ساتھ یورو زون کا ایک ہنگامی اجلاس بھی ہونے جا رہا ہے۔ تاہم بدھ کی شام کن میں ہی جرمن چانسلر انگیلا میرکل اور فرانسیسی صدر نکولا سارکوزی نے یونان کے وزیر اعظم جارج پاپاندریو سے بھی ملاقات کی۔
بعدازاں انہوں نے ایک نیوز کانفرنس سے خطاب میں یونان سے کہا ہے کہ وہ یورو زون سے وابستگی کے حوالے سے کوئی بھی فیصلہ کر لے۔ یونان میں آئندہ ماہ ایک سو تیس ارب یورو کے بیل آؤٹ پروگرام پر ریفرنڈم بھی ہونے جا رہا ہے۔
سارکوزی کا کہنا ہے کہ یونان میں ریفرنڈم کے نتائج آنے تک ایتھنز حکومت کو امدادی رقوم جاری نہیں کی جا سکتیں۔
میرکل کہتی ہیں کہ برلن حکومت یونان کو بحران سے نکلتے ہوئے دیکھنا چاہتی ہے لیکن یورو زون کو بچانا ایتھنز حکومت کی مدد سے زیادہ ضروری ہے۔
جرمن چانسلر نے بدھ کو کن روانگی سے پہلے بھی کہا تھا، ’’ہم نے یونان کے لیے گزشتہ ہفتے ایک منصوبے پر اتفاق کیا تھا۔ ہم اس منصوبے کو عملی شکل دینا چاہتے ہیں، لیکن اس مقصد کے لیے ہمیں کچھ وضاحتیں چاہیئں۔‘‘
دوسری جانب سارکوزی کا کہنا ہے کہ پاپاندریو کی جانب سے ریفرنڈم کے اعلان نے یورپ بھر کو حیرت زدہ کر دیا ہے۔ فرانسیسی وزیر اعظم فرانسوا فيلون نے اپنے پارلیمنٹ سے خطاب میں کہا کہ یورپ ہفتوں تک اس ریفرنڈم کے نتائج کے انتظار میں بیٹھا نہیں رہ سکتا۔
انہوں نے کہا: ’’یونان کے عوام کو جلدی اور واضح طور پر یہ کہنا ہو گا کہ وہ یورو زون کا حصہ رہنا چاہتے ہیں یا نہیں۔‘‘
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق جرمنی کی وزارت خزانہ نے بھی پہلے ہی اس بات کا اشارہ دیا تھا کہ اس کے یورپی اتحادی اور آئی ایم ایف ایتھنز کو امددی پیکیج کی اگلی قسط کے آٹھ ارب یورو کی ادائیگی ریفرنڈم تک روک سکتے ہیں۔
برلن میں وزارت خزانہ کے ترجمان مارٹن کوٹہاؤس کا کہنا تھا، ’’یہ قسط ابھی تک ادا نہیں کی گئی۔ آج تک کی صورت حال یہی ہے۔ حالات کیا رُخ اختیار کرتے ہیں، یہ دیکھنا ہو گا۔ لیکن جو کچھ ہمیں یونان کی جانب سے سننے کو مل رہا ہے، اس کے مطابق کم و بیش دسمبر کے وسط تک اس ادائیگی کی کوئی فوری ضرورت نہیں ہے۔‘‘
خیال رہے کہ جی ٹوئنٹی اجلاس کن میں جمعے تک جاری رہے گا۔ اس گروپ کے ارکان میں ارجنٹائن، آسٹریلیا، برازیل، کینیڈا، چین، فرانس، جرمنی، بھارت، انڈونیشیا، اٹلی، جاپان، میکسیکو، روس، سعودی عرب، جنوبی افریقہ، جنوبی کوریا، ترکی، برطانیہ، امریکہ اور یورپی یونین شامل ہیں۔
رپورٹ: ندیم گِل / خبر رساں ادارے
ادارت: شامل شمس