جے آئی ٹی، پاکستان کے مسائل اور جمہوری بادشاہتوں کی روایت
11 جولائی 2017پاناما پیپرز میں پاکستان سے صرف موجودہ وزیر اعظم نواز شریف کے اہل خانہ ہی کا تذکرہ شامل نہیں تھا۔ پاناما لیکس میں آف شور کمپنیوں کے مالک پاکستانیوں یا ان کے اہل خانہ کے ناموں کی فہرست میں اگر کئی دیگر نام بھی شامل تھے، تو احتساب صرف شریف خاندان ہی کا کیوں ہوا؟
اس سے بھی قطع نظر، جب پاکستانی سپریم کورٹ کے حکم پر شریف خاندان کے خلاف مقدمے میں ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم یا جے آئی ٹی قائم کی گئی، تو اس ٹیم کو اپنی کارروائی مکمل کرنے کے لیے وقت بھی ملا اور اس نے اپنا کام پورا کرنے کے بعد اپنی رپورٹ دس جولائی کو اسلام آباد میں سپریم کورٹ کو پیش بھی کر دی۔
یہاں تک تو بات سمجھ میں آتی ہے۔ اس پہلو کو اگر کچھ دیر کے لیے نظر انداز بھی کر دیا جائے کہ آیا یہ مقدمہ سپریم کورٹ میں جانا چاہیے تھا، یا جے آئی ٹی کا قیام کتنا ضروری تھا، یہ بات تو کم از کم تسلی بخش ہے کہ مروجہ عدالتی تقاضوں کے مطابق قانون نے اپنے راستے کا تعین خود کیا اور اس کیس میں اب اگلی پیش رفت سترہ جولائی کو ہو گی، جب سپریم کورٹ میں اس مقدمے کی دوبارہ سماعت کی جائے گی، قابل احترام ججوں کی طرف سے جے آئی ٹی کی رپورٹ کے تفصیلی مطالعے کے بعد۔
جے آئی ٹی نے اپنی تفتیش مکمل کرنے کے بعد کتنے سوالوں کے جواب دیے ہیں اور کتنے سوالات تاحال جواب طلب ہی رہے ہیں، اس بارے میں کچھ بھی کہنے سے قبل زیادہ اہم وہ ایک سوال بھی ہے جو عین اسی جگہ پر پاکستانی عوام سے پوچھا جانا چاہیے۔
پاکستانی عوام کی اکثریت یا کم از کم ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا پر صبح شام بیانات دینے اور پڑھنے والے پاکستانیوں کی اکثریت یہ کیوں سمجھتی ہے کہ پاکستانی حکومت یا دفاعی اداروں کی کارکردگی یا جمہوری نظام کی غیر صحت مند روایت پر تنقید کرنے والا کوئی بھی شخص پاکستان کا دوست نہیں ہو سکتا؟
کسی بھی سوشل میڈیا پر کچھ بھی لکھیے، تھوڑی ہی دیر میں آپ کو پاکستان دشمن، یہودی ایجنٹ، بھارت نواز یا پھر کافر ہونے کی ایسی سند مل جائے گی کہ آپ سوچتے ہی رہ جائیں گے کہ کوئی بڑی تحمل مزاجی سے، بردباری اور دلائل کے ساتھ، کسی قابل فہم منطق کے تحت اگر کوئی بات کرے بھی تو کیسے؟
دنیا بھر میں ایک بنیادی انسانی ضابطہ یہ ہے کہ جمہوریت میں سب برابر ہوتے ہیں اور یہ نہیں دیکھا جاتا کہ کون کچھ کہہ رہا ہے، بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ کیا کہہ رہا ہے۔ پاکستانی معاشرے میں اس اصول کے برعکس عمومی رواج یہ ہے کہ کچھ بھی سننے سے قبل یہ دیکھا جاتا ہے کہ جو کچھ کہا جا رہا ہے، وہ کہہ کون رہا ہے۔
طویل المدتی بنیادوں پر اس کا ایک نتیجہ یہ بھی نکلا ہے کہ پاکستان میں شدت پسند سنیوں کے مطابق شیعہ ’کافر‘ ہیں۔ شیعہ اقلیت کے جو افراد بے محل جذباتیت میں مکالمے کی منطق کو نظر انداز کر دیتے ہیں، ان کے مطابق سنی اکثریت بھی ’کافر‘ ہے۔ اسی طرح پاکستان میں دیگر عقائد اور مذاہب کے پیروکاروں کی مثال بھی لے لیجیے۔ پتہ یہ چلے گا کہ پاکستان میں خود مختلف سماجی، نسلی اور مذہبی گروپوں کی طرف سے ایک دوسرے کے خلاف جاری کردہ فتووں کے بعد اس ملک میں ’کفار‘ کی تعداد پورے ملک کی آبادی سے بھی زیادہ ہو گئی ہے۔
اگر صرف ایک لمحے کے لیے بھی سوچا جائے تو یہ کڑوا سچ کسی بھی پاکستانی کے لیے باعث فخر نہیں ہو سکتا۔ اس تکلیف دہ حقیقت سے نکلنے کا واحد طریقہ ہابمی احترام، برداشت اور پرامن مکالت میں پوشیدہ ہے۔ اس لیے کہ پاکستان صرف کسی نواز، آصف، عمران، سراج یا الطاف کا ملک نہیں اور نہ ہی کسی پنجابی، سندھی، بلوچی یا پٹھان کا۔ یہ ہر اس فرد کا ملک ہے جو پاکستان کا شہری ہے۔ آئین پاکستان کی نظر میں کسی ارب پتی پاکستانی کو بھی وہی حقوق حاصل ہیں، جو اس ملک کے کسی گاؤں میں ریڑھی پر پھل بیچنے والے کسی شہری کو۔
تو پھر جے آئی ٹی کی رپورٹ پیش کر دیے جانے کے بعد کئی اپوزیشن سیاسی جماعتوں کے درجنوں رہنما یہ مطالبے کیوں کر رہے ہیں کہ اب نواز شریف کو مستعفی ہو جانا چاہیے؟ اس لیے کہ یہ ’لیڈر‘ سمجھتے ہیں کہ ان کی خواہش ہی پاکستانی قانون کی اساس ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ جب سپریم کورٹ نے نواز شریف کو ابھی تک کسی بھی کیس میں مجرم قرار نہیں دیا تو پھر ان کے استعفے کے مطالبے کیسے؟
یہ بھی جعلسازی کی جمہوریت یا فوجی آمریت کے نام پر عشروں تک پاکستانی عوام کو ان کے حقوق اور اجتماعی ترقی سے مسلسل محروم رکھنے والے انہی ’رہنماؤں‘ کا کمال ہے کہ اب ان سے مزید ایک ہفتے تک بھی صبر نہیں ہو رہا۔ عین ممکن ہے کہ سپریم کورٹ اپنا فیصلہ نواز شریف اور ان کے خاندان کے ارکان کے خلاف ہی سنائے۔ لیکن یہ کام تمام پاکستانیوں کو ملکی سپریم کورٹ کو کرنے دینا چاہیے۔
دوسری صورت میں پاکستان میں جمہوریت کے نام پر ایک بار پھر وہی ’جمہوری بادشاہتیں‘ مضبوط ہوں گی، جن میں کسی بھی پارٹی میں عہدے اور حکومت میں آنے کے بعد وزارتیں بھائیوں، بہنوں، بھانجوں، دامادوں، بھتیجوں، پوتوں اور نواسوں میں ہی تقسیم ہوتی ہیں۔ کمزور جمہوریت کا علاج مزید جمہوریت ہوتی ہے۔ جب تک عدلیہ کسی حکمران کو مجرم قرار نہ دے، کسی بھی جمہوری حکومت کو اس کی قانونی مدت پوری کرنے کا موقع دینا بھی عوام کے جمہوری فیصلے کے احترام ہی کا حصہ ہے۔