فلسطینی سفیر کی حافظ سعید کے ساتھ جلسے میں شرکت کا تنازعہ
31 دسمبر 2017جمعے کے روز لیاقت باغ میں ہونے والے جلسے کے دوران اسٹیج پر فلسطینی سفیر ولید ابو علی بھی جماعت الدعوۃ کے رہنما حافظ سعید کے ساتھ موجود تھے۔ یہ ریلی امریکی صدر ڈونلد ٹرمپ کی طرف سے یروشلم کو اسرائیلی دارالحکومت قرار دینے کے فیصلے کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے نکالی گئی تھی۔
راولپنڈی میں ہونے والے اس جلسے میں ہزاروں افراد شریک تھے اور اس کا انعقاد مذہبی جماعتوں کے اتحاد دفاع پاکستان کونسل کی طرف سے کیا گیا تھا جبکہ جماعت الدعوۃ بھی اس مذہبی اتحاد کا حصہ ہے۔ فلسطین کی وزارت خارجہ کی طرف سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے، ’’وزارت خارجہ یہ سمجھتی ہے کہ پاکستان میں ہمارے سفیر نے فلسطینیوں سے یکجہتی کے لیے نکالی گئی ریلی میں شرکت کی تھی۔ وہاں دہشت گردی کے مبینہ حامی کسی شخص کی موجودگی میں یہ شرکت نادانستہ غلطی تھی۔‘‘
فلسطینی وزارت خارجہ کے مطابق فلسطینی صدر کے احکامات کی روشنی میں پاکستان سے ولید ابو علی کو واپس بلانے کے فیصلے کا اطلاق فوری طور پر ہو چکا ہے۔ جاری ہونے والے بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھارت کا مکمل ساتھ دیتے ہیں اور عالمی سطح پر بھارت کی طرف سے فلسطینیوں کی حمایت کرنے پر نئی دہلی حکومت کے شکر گزار بھی ہیں۔
یاد رہے کہ حال ہی میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں یروشلم کو اسرائیلی دارالحکومت قرار دینے کے امریکی فیصلے کے خلاف پیش کی گئی قرار داد میں بھارت نے اسرائیل اور امریکا کی بجائے فلسطین کا ساتھ دیا تھا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق فلسطینی صدر محمود عباس کی طرف سے اپنے سفیر کو واپس بلانے کا فیصلہ نئی دہلی حکومت کے احتجاج کی وجہ سے کیا گیا ہے۔
امریکا کا کہنا ہے کہ جماعت الدعوۃ دراصل کالعدم جنگجو جماعت لشکر طیبہ کا چہرہ ہے۔ یہ عسکری تنظیم حافظ سعید نے ہی بنائی تھی، جس پر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ وہ بھارت میں ہونے والے متعدد حملوں میں ملوث ہے۔ پاکستانی حکومت نے سن دو ہزار دو میں لشکر طیبہ کو ممنوعہ قرار دے دیا تھا۔
نئی دہلی حکومت کا الزام ہے کہ حافظ سعید سن دو ہزار آٹھ میں ممبئی میں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں میں ملوث تھے۔ اس کارروائی میں 166 افراد مارے گئے تھے۔ حافظ سعید کا کہنا ہے کہ ان پر عائد کردہ یہ الزامات بے بنیاد ہیں۔ دوسری طرف امریکا نے بھی اس پاکستانی مذہبی رہنما کے سر کی قیمت دس ملین ڈالر رکھی ہوئی ہے۔