ایران: حجاب تنازعے میں برطانوی اور نارویجیئن سفیر طلب
26 ستمبر 2022ایرانی وزارت خارجہ نے اتوار کے روز بتایا کہ ایران میں حکومت مخالف مظاہروں کی برطانوی اخبارت اور دیگر میڈیا میں اشاعت کے بعد حکومت نے تہران میں برطانوی سفیر سائمن شیر کلف کو دفتر خارجہ میں طلب کرلیا۔
ناروے کے سفیر کو بھی طلب کیا گیا اور ان سے ایران میں جاری مظاہروں کی حمایت میں ناروے کی پارلیمان کے صدر مسعود غراخانی کی جانب سے دیے گئے بیان پر وضاحت طلب کی گئی۔
ایرانی نژاد غراخانی نے اتوار کے روز ٹویٹر پر لکھا تھا، "اگر میرے والدین نے 1987 میں وطن چھوڑ دینے کا فیصلہ نہ کیا ہوتا تومیں بھی ان لوگوں میں سے ایک ہوتا جو اپنی زندگیوں کے لیے سڑکوں پر جنگ لڑ رہے ہیں۔"
حکومتی کارروائی 'غیر منصفانہ ' اور 'ناقابل قبول'
یورپی یونین کے اعلیٰ سفارت کار جوسیپ بوریل نے ایران میں مظاہرین کے خلاف حکومت کی کارروائی کو "غیر منصفانہ" اور "ناقابل قبول" قرار دیا۔
یورپی یونین کی خارجہ پالیسی امور کے سربراہ بوریل نے ایک بیان میں کہا، "یورپی یونین اور اس کے رکن ممالک کے لیے غیرمتشدد مظاہرین کے خلاف طاقت کا بڑے پیمانے پر اور نا مناسب استعمال غیر منصفانہ اور ناقابل قبول ہے۔"
جرمنی کی طرف سے بھی مہسا امینی کی موت کی مذمت
اقوام متحدہ کا ایرانی خاتون کی موت کی تحقیقات کا مطالبہ
انہوں نے کہا،"انٹرنیٹ تک رسائی پر سخت پابندیاں اور مسیجنگ پلیٹ فارموں کو بلا ک کردیا جانا تشویش کا مزید موجب ہے۔ یہ اظہار رائے کی آزادی کی صریح خلاف ورزی ہے۔"
ایران میں مظاہرے کیوں ہورہے ہیں؟
ایک نوجوان کرد خاتون کو ایران کے سخت حجاب قانون کی مبینہ خلاف ورزی کے الزام میں اخلاقی پولیس نے گرفتار کر لیا تھا۔ مہسا امینی نامی اس خاتون کی بعد میں پولیس حراست میں موت ہوگئی۔ پولیس نے دعویٰ کیا کہ ان کی موت دل کا دورہ پڑنے سے ہوئی ہے تاہم گھروالوں کا کہنا ہے کہ امینی کو قلب کی کبھی کوئی شکایت نہیں رہی اور وہ پولیس کی مبینہ زیادتی کی وجہ سے ہلاک ہوگئیں۔
ہیومن رائس واچ کی محقق تارا سپہری نے مظاہروں کے حوالے سے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ "یہ بے مثال ہیں۔" انہوں نے مزید کہا،"میں نے لازمی حجاب پہننے کے خلاف اتنی شدید نکتہ چینی پہلے کبھی نہیں دیکھی۔ ان مظاہروں کی نوعیت متنوع ہے اس میں ایرانی سماج اور ملک کے تمام طبقات شامل ہیں۔"
مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے۔ اسے حالیہ برسوں میں سب سے بڑا مظاہرہ قرار دیا جا رہا ہے۔ گزشتہ دس روز سے جاری ان مظاہروں میں اب تک کم از کم 41 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جب کہ درجنوں دیگر زخمی ہوئے ہیں اور متعدد افراد کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔
حکومتی فورسز کے اہلکار بھی مبینہ طورپر ہلاک ہوئے ہیں۔ خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹیڈ پریس کے مطابق سنیچر کی رات تہران میں مظاہرین کے ساتھ تصام میں پاسداران انقلاب اسلامی کا ایک اہلکار ہلاک ہو گیا۔ سنیچر کے روز ہی صدر ابراہیم رئیسی نے احتجاجی تحریک کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کرنے کا حکم دیا تھا۔
امریکہ پرمظاہرین کی حمایت کا الزام
ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللھیان نے ملک میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں کو غیرملکی سازش قرار دیا ہے۔ انہوں کہا کہ شرپسند عناصر امریکہ کی پشت پناہی سے ایران میں نظام زندگی تباہ کرنے کے لیے احتجاج کا سہارا لے رہے ہیں۔ انہوں نے امریکہ پر زور دیا کہ وہ ایران میں حکومت مخالف مظاہروں کی حمایت کرنا بند کریں۔
نیم سرکاری ایرانی اسٹوڈنٹس نیوز ایجنسی (ISNA) کے مطابق وزیرخارجہ نے کہا کہ ''فسادیوں'' کی امریکی حمایت واشنگٹن کے سفارتی موقف سے متصادم ہے۔
کرناٹک کی مسکان اور ایران کی مھسا میں فرق تلاش کریں
انہوں نے سڑکوں پر نکلنے والے مظاہرین کو"فسادی" قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ ''ان فسادیوں کی حمایت میں امریکا کی شمولیت اور ملک کے اندرونی استحکام کو غیر مستحکم کرنے کے ان کے منصوبے پر عمل درآمد میں ان کی حمایت جوہری معاہدے تک پہنچنے اور استحکام قائم کرنے کی ضرورت کے حوالے سے واشنگٹن کے سفارتی پیغامات سے واضح طور پر متصادم ہے۔''
ج ا /ص ز(اے ایف پی، اے پی، ڈی پی اے، ا ی ایف ای)