حزب اللہ کے پاس واکی ٹاکیز دس سال پرانی ہیں، جاپانی فرم
19 ستمبر 2024لبنانی عسکریت پسند تنظیم حزب اللہ کے جنگجوؤں کے زیر استعمال واکی ٹاکیز تیار کرنے والی جاپانی فرم کا کہنا ہے کہ اس نے دس سال قبل ایسے مواصلاتی آلات کی تیاری بند کر دی تھی۔ جاپانی فرم آئی کام نے یہ بیان بدھ 18 ستمبر کو اس عسکریت پسند گروپ کی طرف سے استعمال کی جانے والی واکی ٹاکیز کے پھٹنے کے ایک دن بعد جاری کیا ہے۔
یہ واقعہ حزب اللہ ارکان کے زیر استعمال پیجرز کے پھٹنے کے اگلے دن پیش آیا۔ واکی ٹاکیز پھٹنے کے سبب کم از کم 20 افراد ہلاک اور 450 زخمی ہوئے۔ آئی کام نے اپنے ایک بیان میں کہا، ''ماڈل IC-V82 ہاتھ میں پکڑ کا استعمال کیے جانے والا ایک ریڈیو سیٹ ہے، جو 2004 سے اکتوبر 2014 تک تیار کیا جاتا رہا تھا اور مشرق وسطیٰ سمیت کئی خطوں کو برآمد کیا گیا تھا۔ اس کی تیاری تقریباً 10 سال پہلے بند کر دی گئی تھی اور اس کے بعد سے اسے ہماری کمپنی کے ذریعے کہیں نہیں بھیجا گیا۔‘‘
بیان میں مزید کہا گیا ہے، ''اس آلے کو چلانے کے لیے درکار بیٹریوں کا پیداواری عمل بھی بند کر دیا گیا ہے اور جعلی مصنوعات میں فرق کرنے کے لیے ایک ہولوگرام والی مہر بھی ثبت نہیں تھی، اس لیے اس بات کی تصدیق کرنا ممکن نہیں ہے کہ آیا یہ پراڈکٹ ہماری کمپنی سے بھیجی گئی تھی۔‘‘
آئی کام نے مزید کہا کہ اس کے تمام ریڈیو جاپان میں بنائے گئے ہیں اور اس کا برآمدی پروگرام سخت جاپانی سکیورٹی اور تجارتی کنٹرول کے ضوابط پر مبنی ہے۔ کمپنی کے اس بیان کے بعد ان سوالات میں ایک اور کا اضافہ ہو گیا ہے کہ ان واکی ٹاکیز میں تکنیکی رد و بدل کیسے کیا جا سکتا تھا۔
'حزب اللہ کے لیے ایک بڑا دھچکا‘
اسرائیلی ڈیفنس فورسز (آئی ڈی ایف) کے ریٹائرڈ بریگیڈیئر جنرل اور واشنگٹن انسٹیٹیوٹ فار نیئر ایسٹ پالیسی میں موجودہ بین الاقوامی فیلو اساف اورین نے ان امریکی جائزوں سے اتفاق کیا ہے کہ اسرائیل نے لبنان میں ممکنہ طور پر واکی ٹاکیز اور پیجر حملے کیے ہیں۔
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''کس کو فائدہ ہوتا ہے؟ یہ ایک اچھا سوال ہے جس سے شروع کیا جائے۔ میرے خیال میں حزب اللہ کے تمام دشمن فائدہ اٹھا رہے ہیں، جب آپ اس طرح کے حملے کرنے کے لیے درکار صلاحیتوں کے بارے میں سوچتے ہیں، تو یہ شاید اسرائیل ہے۔‘‘
ان واقعات سے حزب اللہ کو پہنچنے والے نقصان کے بارے میں اورین نے کہا، ''یہ اصل میں کمانڈ اور آپریشنل سطحوں پر ایک بڑا خلل ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ یہ حملے اس لبنانی تنظیم کے لیے ایک ''حیران کن دھچکا‘‘ ہیں اور یہ اس گروپ میں ''اپنی سلامتی پر اعتماد کی کمی‘‘ پیدا کریں گے۔ اورین نے مزید کہا، ''اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان دشمنی کو روکنے کے لیے ''واحد آپشن‘‘ غزہ میں جنگ بندی ہے، جو فی الحال بظاہر ممکن نہیں ہے۔‘‘
حملے ریاستی سر پرستی میں کیے گئے، ماہرین
یونیورسٹی آف پٹسبرگ میں بین الاقوامی امور کی پروفیسر میلنڈا ہاس نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس میں کوئی سوال نہیں کہ منگل کے روز حزب اللہ پر پیجر حملے ریاستی سرپرستی میں کیے گئے تھے۔ انہوں نے کہا، ''یہ مفروضہ کہ یہ ریاستی سرپرستی میں ہونے والا ایک آپریشن ہے، جغرافیائی حد، تکنیکی نفاست اور بیک وقت ہونے والے دھماکوں کو دیکھتے ہوئے یقیناﹰ درست ہے۔ اس لیے بھی کہ حزب اللہ کے ایجنوں کے زیر استعمال متعدد اقسام کے آلات تک رسائی حاصل کرنے کے لیے جو زمینی انٹیلیجنس درکار ہے، وہ ریاستی وسائل سے ہی ممکن ہے۔‘‘
انہوں نے اس حملے کو ''بے مثال‘‘ لیکن حیران کن نہ قرار دیتے ہوئے مزید کہا، ''حملوں کا مقصد ایک پیغام دینا ہےکہ ان کا محرک، غالباً اسرائیل، حزب اللہ کی تنظیم تک پہنچنے کے قابل ہے اور اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ لوگ کتنی کم ٹیکنالوجی والے آلات استعمال کر رہے ہیں اور یہ کہ اسرائیل زمین پر کہیں بھی ان لوگوں تک پہنچ سکتا ہے۔‘‘
اسرائیل نے ابھی تک پیجر یا واکی ٹاکیز حملوں پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ وائٹ ہاؤس نے اسرائیل اور حزب اللہ کو تناؤ میں مسلسل اضافے کے خلاف خبردار کیا ہے۔
ش ر⁄ اب ا، م م (اے پی، اے ایف پی، ڈی پی اے، روئٹرز)