حکمت یار کا دورہ، امن کی کوششیں یا مستقبل کی صف بندی
19 اکتوبر 2020افغانستان میں نوےکی دہائی میں جنگ بندی کے دوران متحارب گروپوں نے صف بندی کی ہوئی تھی۔ ایک وقت میں گلبدین اور ان کے اتحادی پاکستان کے ساتھ تھے جبکہ ان کے مخالف ایران، روس، بھارت اور دوسرے ممالک کےساتھ تھے۔ یہ صف بندی طالبان کے دور میں بھی جاری رہی جہاں طالبان اسلام آباد کے ساتھ تھے جب کہ شمالی اتحاد روس، ایران اور بھارت کے حمایتی تھے۔
حکمت یار کا یہ دورہ افغان رہنما عبداللہ عبداللہ کے دورے کے بعد ہو رہا ہے۔ عبداللہ عبداللہ نے حال ہی میں پاکستان کا دورہ کیا تھا، جہاں ان کا پرتپاک خیرمقدم کیا گیا تھا۔ حکمت یار نے آج وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے ملاقات کی اور پاکستان کو اپنا دوسرا گھر قرار دیا۔ پاکستان میں حکومتی حلقے اس دورے کو امن کوششوں کا حصہ قرار دے رہے ہیں۔
حکمت یار اور پاکستان
حکمت یار کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ انہیں ستر کی دہائی میں افغانستان میں سردار داؤد کی حکومت میں آنے کے بعد پاکستان کی سرپرستی حاصل ہوئی تھی۔ حکمت یار کو افغانستان میں انتہائی سخت گیر سمجھا جاتا تھا، جن کے خواتین کے حوالے سے خیالات انتہائی قدامت پرستانہ تھے۔ افغان جنگ کے دوران حکمت یار پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں کے انتہائی قریب خیال کیے جاتے تھے۔ ان کے نہ صرف پاکستان کی جماعت اسلامی سے بہت قریبی تعلقات تھے بلکہ پاکستان کے سبھی جہادی حلقوں میں بھی وہ بہت مشہور تھے۔ نوے کی دہائی کے ابتدائی برسوں میں ڈاکٹر نجیب اللہ کی حکومت کے زوال کے بعد حکمت یار عبوری حکومت کے وزیر اعظم بنے لیکن جلد ہی یہ حکومت شدید اختلافات کا شکار ہو گئی اور ملک خانہ جنگی کی لپیٹ میں آگیا۔ اسی خانہ جنگی نے طالبان تحریک کو جنم دیا اور نوے کے ہی عشرے میں حکومت پر قبضہ کر لیا۔ ستمبر گیارہ کے دہشت گردانہ واقعات کے بعد حکمت یار نے بھی امریکی حملے کے خلاف مزاحمت کا راستہ اختیار کیا۔ تاہم وہ کچھ برسوں پہلے افغان حکومت سےمذاکرات کرنے کے بعد ایک طرح سے حکومت کے حلیف بن گئے۔ جس کی وجہ سے طالبان حلقے ان کو کسی حد تک ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ طالبان اور حکمت یار اب حریف سمجھے جاتے ہیں۔ تاہم دونوں اسلام آباد کے قریب اوربھارت مخالف ساکھ بھی رکھتے ہیں۔
افغانستان کو کسی بھی نتیجے کے لیے تیار رہنا ہو گا: عبداللہ عبداللہ
افغانستان سے فوجی انخلاء کے لیے امریکا کی اب ایک نئی شرط
امن کی کوششیں
پاکستان میں کئی حلقوں کا خیال ہے کہ اسلام آباد مخلص انداز میں افغانستان میں امن کی کوششیں کر رہا ہے اور یہ دورہ بھی انہی کوششوں کا حصہ ہے۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کے سابق سفیر شمشاد احمد خان کا کہنا ہے کہ افغان امن میں اسٹیک ہولڈر صرف پاکستان ہے جب کہ ایران، بھارت اور امریکہ کے صرف مفادات ہیں: ''افغانستان میں لوگ جنگ سے بیزار ہیں۔ وہاں کی بدامنی نے پاکستان کو بھی متاثر کیا ہے، تو اسلام آباد سے بڑھ کر کون ہوگا، جو وہاں امن چاہتا ہوگا۔ پاکستان پورے اخلاص کے ساتھ جنگ زدہ ملک میں امن کی کوششیں کر رہا ہے اور ابھی مزید افغان رہنما پاکستان کا دورہ بھی کرینگے اور امن کے اس مشن کو آگے بڑھائیں گے۔‘‘
بھارت کو پیغام
نیشنل یونیورسٹی برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے عالمی ادارہ برائے امن واستحکام سے وابستہ ڈاکٹر بکارے نجم الدین کا خیال ہے کہ اس دورے کے کئی مقاصد ہیں: ''ایک تو یہ ہی ہے کہ افغان امن کی کوششوں کو آگے بڑھایا جائے، طالبان اور حکمت یار دونوں حریف ہیں لیکن بھارت مخالف بھی ہیں تو پاکستان ان دونوں میں صلح صفائی بھی چاہتا ہے تاکہ وہاں بھارت کا اثر و رسوخ کم ہو۔ تیسرا یہ ہے کہ اس دورے سے پاکستان سینیٹرآف گریوٹی بھی بن رہا ہے اور دنیا کو دکھا رہا ہے کہ اس کے بغیرافغانستان کا سیاسی حل آسان نہیں ہے۔‘‘
مسقبل کی پیش بندی
پریسٹن یونیورسٹی اسلام آباد کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات سے وابستہ ڈاکٹرامان میمن کا خیال ہے کہ اسلام آباد کو افغانستان میں امن کوششوں کی ناکامی پر خانہ جنگی نظرآ رہی ہے: ''ایسی صورت میں بھارت وہاں اپنے اثر ورسوخ کو بڑھائے گا۔ ٹی ٹی پی اور دوسرے پاکستان مخالف عناصر کواسلام آباد کے خلاف استعمال کرے گا تو میرے خیال میں پاکستان امن کی کوششیں کر رہا ہے لیکن افغانستان میں موجودہ لڑائیوں سے یہ بات بھی عیاں ہو رہی ہے کہ ملک ممکنہ طور پر خانہ جنگی کی طرف جا سکتا ہے۔ ایسی صورت میں پاکستان بھارت مخالف عناصر سے مضبوط تعلقات چاہے گا۔ طالبان اور حکمت یار دونوں ہی بھارت مخالف ہیں۔ لہذا پاکستان ان سے بہتر تعلقات چاہتا ہے۔‘‘