1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سیلاب، زرداری، عرب اسپرنگ، بغاوت،

27 جولائی 2011

پاکستان میں ایک سال قبل آنے والا سیلاب کوئی پہلی نا گہانی آفت نہیں تھی جس سے نمٹنے میں حکومت ناکام رہی۔ تاہم اس ملک میں عوامی بغاوت کا کوئی تصور نہیں یایا جاتا۔

https://p.dw.com/p/124mm
پاکستان کے کل رقبے کا بیس فیصد زیر آبتصویر: AP

پاکستان میں ایک سال قبل آنے والے سیلاب نے ملک کے شمال سے لے کر جنوب تک تباہی پھیلا دی۔ دو ہزار کے قریب لوگ ہلاک جبکہ 20 ملین انسان اس خوفناک سیلاب سے متاثر ہوئے۔ پاکستان میں اتنے بڑے پیمانے پر آنا والا سیلاب کوئی پہلی نا گہانی آفت نہیں تھی جس سے نمٹنے میں حکومت ناکام رہی۔ اس کے باوجود پاکستان میں اکابرین کے خلاف اُس طرح کی عوامی بغاوت کا تصور بھی نہیں پایا جاتا، جس طرح عرب ممالک میں حال ہی میں عوام کی طرف سے اٹھنے والی بغاوت کی لہر تھی، جسے ’عرب اسپرنگ یا بہار‘ کا نام دیا گیا۔

گزشتہ برس جس وقت دریاءِ سندھ کی تند و تیز لہروں نے دیکھتے ہی دیکھتے ملک کے کل رقبے کے بیس فیصد حصے کو زیر آب کر دیا تھا اُس وقت پاکستانی صدر آصف علی زرداری یورپ کے دورے پر تھے۔ ریاستی سربراہ کے لیے اپنے سفری پروگرام میں تبدیلی لانے کا شاید یہ کوئی جواز ہی نہیں تھا، جبکہ اُن کا ملک ڈوب رہا تھا۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق ایک سال بعد بھی تقریباً 16 ملین سیلاب متاثرین امداد کے منتظر ہیں۔ پہلے کی طرح اب بھی کم از کم نصف ملین انسانوں کو چھت میسر نہیں۔ اُدھر امدادی تنظیم آکسفام نے اگلے سیلاب سے متنبہ کر دیا ہے۔ ملک کی غریب عوام بری طرح ان حالات میں پس رہی ہے۔ اُس کے پاس تمام تر وجوہات موجود ہیں ارباب اختیار کے خلاف اُٹھ کھڑے ہونے کی۔

Asif Ali Zardari David Cameron England Pakistan Treffen
ملک میں ناگہانی آفت، صدر مملکت یورپ کے دورے پرتصویر: AP

لندن میں قائم ایک تھنک ٹینک Chatham House سے منسلک ایک پاکستانی ماہرفرزانہ شیخ کے مطابق، ’ یہ سچ ہے کہ پاکستان یکے بعد دیگرے ناگہانی آفات سے گزر رہا ہے اور کوئی شک نہیں کہ پاکستان اس وقت ایک ہنگامی صورتحال کا سامنا کر رہا ہے۔ پاکستان کو چند سری حکومت والے ملک کی حیثیت سے دیکھا جا نا چاہیے۔ اس ملک میں اشراف سالاری بہت مضبوط ہے، جو تمام تر بحرانوں اور المیوں کے باوجود اس ملک کو مکمل طور پر تباہ ہونے سے بچا سکتی ہے۔‘

فرزانہ شیخ کا مزید کہنا ہے کہ ’پاکستان روز بروز قدامت پسند ہوتا جا رہا ہے اور 60 کے عشرے کے مقابلے میں وہاں عسکریت پسندوں کے لیے فضا ہموار ہو گئی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایسی کوئی مخالف قوت موجود ہے اور اتنی طاقتور ہے کہ مسلم عسکریت پسندی کے پھیلاؤ کو روک سکے۔ یہ ملک خونریزی کے دہانے پر کھڑا ہے اور میری طرح بہت سے دیگر پاکستانیوں کا بھی یہی ماننا ہے کہ پاکستان اس وقت خود اپنے خلاف جنگ کر رہا ہے‘۔

Pakistan-Expertin Dr. Farzana Shaikh
پاکستانی ماہر فرزانہ شیختصویر: Farzana Shaikh

لٹا پٹا، زخمی ملک پاکستان 2005 ء میں آنے والے زلزلے اور اب گزشتہ سال کے سیلاب کے بعد مزید تباہ ہو چکا ہے۔ اُس پر مذہبی انتہا پسندی اور عسکریت پسندی عروج پر ہے۔ سونے پر سہاگہ پاکستانی حکومت ہے جو کُلی انتشار اور بد نظمی کا شکار ہے، اس کے لیے صرف اور صرف ایک چیز کی اہمیت ہے۔ وہ یہ کہ طاقت کو کس طرح محفوظ رکھا جائے۔ برلن میں قائم ’سینٹر آف ماڈرن اوریینٹ‘ نامی ریسرچ انسٹیٹیوٹ سے منسلک جنوبی ایشیائی امور کے ایک جرمن ماہر ’ ڈیٹرش ریٹس‘ اس بارے کہتے ہیں،’ایک سرکاری پاکستان ہے جہاں کسی طرح سے ملکی کاروبار چل رہا ہے، ایک غیر سرکاری پاکستان ہے جو بہت مضبوط ہے، جو نہ تو ٹیکس ادا کرتا ہے، جہاں صرف اکابرین کی چلتی ہے۔ جہاں چند خاندان فیصلے کرتے ہیں کہ فوج کے اندر کیا ہو رہا ہے اور بزنس کی دنیا میں کیا ہونا چاہیے۔‘

جرمن ماہر ریٹس کا تاہم کہنا ہے کہ پاکستان کو محض ان دو نقطہ ہائے نگاہ سے نہیں دیکھا جانا چاہیے، یہ ایک غلطی ہوگی۔ اُن ملکوں کے مقابلے میں، جہاں عرب عوام نے مطلق العنان حکومتوں اور اکابرین کے خلاف بغاوت کے ذریعے انہیں اقتدار سے علیحدہ کیا، پاکستان میں میڈیا آزاد ہے، وہاں آزادیءِ اجتماع اور سیاسی انتخاب کی آزادی اور کہیں زیادہ کھلا ماحول پایا جاتا ہے۔

رپورٹ: زانڈرا پیٹرزمن/ کشور مصطفیٰ

ادارت: افسر اعوان

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں