حکومت ہندو لڑکیوں کو اپنی تحویل میں لے، عدالت
26 مارچ 2019نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹ کے مطابق پولیس کا کہنا ہے کہ ان ہندو لڑکیوں کی صوبہ سندھ کی حدود سے باہر صوبہ پنجاب میں جا کر شادی کرائی گئی جہاں اٹھارہ سال سے کم عمر لڑکی کی شادی کرنا جرم نہیں ہے۔ اس حوالے سے سماجی کارکن ثمر من اللہ نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اہم بات یہ ہے کہ یہ لڑکیاں سندھ سے تعلق رکھتی ہیں اور ان کی عمر اٹھارہ سال سے کم ہے لہذا ان کی شادی کرانا ایک جرم ہے۔ اس کیس کے حوالے سے پولیس افسر فرخ علی نے روئٹرز کو بتایا،’’ یہ لڑکیاں اسلام آباد کی عدالت عالیہ میں پیش ہوئی ہیں۔ عدالت نے نائب کمیشنر کو حکم دیا ہے کہ وہ انہیں اپنی تحویل میں لے۔‘‘
عدالت نے ایک ہفتے میں اس کیس کے حوالے سے رپورٹ طلب کر لی ہے اور اس کیس کے حل ہو جانے تک لڑکیوں کو سندھ نہ لے جانے کی ہدایت کی ہے۔ اس پیش رفت کے بارے میں ثمر من اللہ کہتی ہیں،’’ اس کیس میں لوگوں کو حراست میں لیا جانا، ملک کے وزیر اعظم کا نوٹس لینا اور پھر میڈیا کی اس کیس پر بھر پور توجہ ایک خوش آئند رجحان ہے۔‘‘
کچھ روز قبل سندھ کے علاقے گھوٹکی کی ان دو نوجوان ہندو لڑکیوں کو مبینہ طور پر اغوا اور پھر ان کی زبردستی شادی کرانے کی خبر منظر عام پر آئی تھی۔ سوشل میڈیا کی ایک ویڈیو میں ان بچیوں کے والد کو روتے اور ماتم کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔ تاہم سوشل میڈیا پر ایک اور ویڈیو بہت زیادہ شیئر کی گئی جس میں یہ دونوں بہنیں کہہ رہی ہیں کہ انہوں نے اپنی مرضی سے شادی کی ہے۔
روئٹرز کی رپورٹ کے مطابق پولیس نے اس کیس میں دس لوگوں کو حراست میں لے لیا ہے اور ان ہندو لڑکیوں کے والدین کی جانب سے شکایت کے بعد ایف آئی آر بھی درج کر لی ہے۔ اس واقع کو پاکستانی اور بین الاقوامی میڈیا میں رپورٹ کیا گیا، یہاں تک کہ بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج اور پاکستانی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کے مابین ٹوئٹر پر بحث بھی ہو گئی۔ ایک حالیہ ٹویٹ میں سشما سوراج نے لکھا،’’ نئے پاکستان کے وزیر اعظم بھی اس بات پر یقین نہیں کر سکیں گے کہ ان لڑکیوں نے اپنی مرضی سے مذہب تبدیل کیا ور پھر شادی بھی کر لی۔‘‘
’یہ مودی کا بھارت نہیں، یہ نیا پاکستان ہے‘
صرف ہندو لڑکیاں ہی کیوں مسلمان ہو رہی ہیں؟
ثمر من اللہ جیسے تجزیہ کاریہ سوال کر رہے ہیں کہ ایسا کیوں ہے کہ کم سن ہندو بچیاں ہی اسلام قبول کرتی ہیں اور ان کی شادیاں کر دی جاتی ہیں۔ من اللہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،’’ یہ پہلا واقعہ نہیں ہے ، ماضی کے کئی کیسز میں جبری طور پر مذہب تبدیل کرائے جانے کے ثبوت بھی ملے ہیں ۔ ہمیں ان بچیوں سے توقع نہیں کرنی چاہیے کہ وہ کھل کے بیان دیں۔ وہ کم عمر ہیں اور خوفزدہ ہیں۔ لہذا دانشوری سے کام لیتے ہوئے معاملے کو دیکھنا ہو گا۔ یہ کہنا بہت آسان ہے کہ ان لڑکیوں نے اپنی مرضی سے شادی کی ہے۔‘‘