حکومت کی تبدیلی اور نوکرشاہی کے مسائل
14 اپریل 2022کچھ ایسا ہی اب شہباز شریف کے اقتدار میں آنے کے بعد ہوا ہے، جہاں ایف آئی اے کے چند افسران کا مبینہ طور پر تبادلہ کردیا گیا ہے جبکہ وفاقی نوکرشاہی میں مزید افسران کے تبادلوں کا امکان بھی ہے۔ اس حوالے سے ڈی ڈبلیو نے سابق بیوروکریٹس سے رابطہ کیا اور ان سے یہ جاننے کی کوشش کی کہ کس طرح کی بے چینی اور اضطراب کی کیفیت میں بیوروکریٹس ہوتے ہیں جب ملک میں حکومت کی تبدیلی ہوتی ہے اور بیوروکریٹس کو کن مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔
اسٹیبلشمنٹ ڈویژن سے تعلق رکھنے والے سابق جوائنٹ سکریٹری منیر جان بلوچ کا کہنا ہے کہ قانونی طور پر ہر بیروکریٹ اس بات کا پابند ہے کہ اس کی جہاں پر بھی پوسٹنگ ہو وہاں پر وہ خدمات انجام دے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''تو بہت سارے افسر شاہی کے افسران ذہنی طور پر اس حوالے سے تیار ہوتے ہیں لیکن سب سے زیادہ مسئلہ فیملی کی طرف سے ہوتا ہے کیونکہ جو افسر جس شہر میں رہ رہا ہوتا ہے اس نے اپنے بچوں کے داخلے مختلف اسکولوں میں کرائے ہوئے ہوتے ہیں جہاں ان کے دوست یار ہوتے ہیں اور بچوں کو یہ بات سمجھانا بڑا مشکل ہوتا ہے کہ وہ ایک شہر کو چھوڑ کر دوسرے شہر کیوں جا رہے ہیں جہاں پر ان کے دوست یار نہیں ہوں گے۔‘‘
منیر جان بلوچ کے مطابق ''فیملی اس وقت بھی یقینا بہت پریشان ہوتی ہے جب کسی افسرکا کوئی نئی حکومت تبادلہ ایسے علاقے میں کردے جو شورش زدہ ہو۔ ایسےمیں فیملی نفسیاتی طور پر بہت زیادہ پریشان ہو جاتی ہے اور اس افسر پر فیملی کی طرف سے دباؤ ہوتا ہے کہ وہ اس جگہ نہ جائے اب اس کے درمیان ایک طرف فیملی ہوتی ہے اور دوسری طرف اس کی نوکری اور لازمی بات ہے کہ وفاقی اداروں میں نوکری بہت محنت کے بعد ملتی ہے خصوصاً وہ افراد جو سی ایس ایس کا امتحان پاس کر کے آتے ہیں ان کے لیے ایسے لمحات بہت زیادہ پریشان کن ہوتے ہیں۔‘‘
پاکستان کی قومی اور نوکر شاہی کی زبانیں مختلف، حل کب نکلے گا؟
سابق سکریٹری برائے پلاننگ کمیشن فضل اللہ قریشی کا کہنا ہے کہ نئی حکومت کے آتے ہی ساتھ کچھ بیوروکریٹس کی چاندی ہو جاتی ہے اور کچھ کو سزا ملتی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہر وزیر اعظم اپنی ٹیم لے کر آنا چاہتا ہے جیسے نواز شریف فواد حسن فواد اور اس کے ساتھی بیوروکریٹس کو لے کر آئے تھے اور عمران خان اعظم خان کو لے کر آئے تھے۔ تو سیاسی طور پر جو بیوروکریٹس پہچان رکھتے ہیں ان کے لیے پریشانی ہوتی ہیں۔ لیکن پچاس فیصد ایسے بھی بیوروکریٹس ہوتے ہیں جو اپنی آزادانہ رائے رکھتے اور اس کا اظہار بھی کرتے ہیں اس طرح کے بیورو کریٹس کو بھی نئی حکومت کے سامنے پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘‘
فضل اللہ قریشی کے بقول بیس فیصد بیوروکریٹ ایسے بھی ہوتے ہیں جو صرف ہاں میں ہاں ملاتے ہیں۔ ''ایسے بیوروکریٹس عموماًٰ ہر حکومت کے ساتھ آسانی سے چل لیتے ہیں اور ان کے لیے کوئی پریشانی نہیں ہوتی۔‘‘
انکوائریوں کا خاتمہ
واضح رہے کہ پاکستانی میڈیا کے ایک حصے میں یہ خبر آئی ہے کہ فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی کے کچھ افسران جو شہباز شریف کے خلاف تفتیش کر رہے تھے ان کا تبادلہ کیا جا رہا ہے یا ان کو کہیں اور بھیجا جا رہا ہے۔ فضل اللہ قریشی کے بقول جو بیوروکریٹ تحقیقات کرتے ہیں یا جن کا تعلق ڈیولپمنٹ پروجیکٹ سے ہوتا ہے ان کو ہٹائے جانے کی وجہ سے سرکار کا اچھا خاصا پیسہ اور وسائل ضائع ہوتے ہیں۔ ''ایک پروجیکٹ کو بنانے کے لیے آپ کو ریسرچ کرنا پڑتی ہے فیزیبیلیٹی رپورٹ بنتی ہے اس کے حوالے سے افسران کے کئی دورے ہوتے ہیں، ملاقاتیں ہوتی ہیں، ان کی رپورٹیں لکھی جاتی ہیں لیکن جب کوئی نیا وزیراعظم آکر اس پروجیکٹ میں دلچسپی نہ ظاہر کرے اور اس پروجیکٹ کو بند کر دیا جائے تو یقیناً وہ سارا پیسہ اور وسائل جو پہلے استعمال کیے گئے تھے وہ ختم ہو گئے جیسا کہ عمران خان نے آکر اسلام آباد کا میڑو ختم کیا. اسی طرح نالہ لئی کا پروجیکٹ تین مرتبہ شیخ رشید کی وجہ سے مکمل نہیں ہو سکا حالانکہ یہ ایک اچھا پروجیکٹ ہے۔‘‘
پریشانی صرف وفاقی نوکر شاہی میں نہیں ہوتی بلکہ صوبائی نوکرشاہی بھی حکومتوں کی تبدیلی کی وجہ سے پریشان رہتی ہے۔ گوادر انڈسٹریل اسٹیٹ کے سابق مینیجنگ ڈائریکٹر نثار احمد بزنجو، جن کا تعلق بلوچستان کے شہر تربت سے ہے، کا کہنا ہے کہ سردار اپنی پسند کے بیوروکریٹس کو لانے کی کوشش کرتے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہمارے صوبے میں سرداروں کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ ایسے بیوروکریٹس کو لائیں، جو انکو کما کر دیں جو بیروکریٹس قابلیت رکھتے ہیں اور کسی طرح کی کرپشن میں ملوث نہیں ہوتے ہیں ان کے لیے چیزیں نسبتاً نئی حکومت کے آنے کے بعد مشکل ہو جاتی ہیں۔‘‘
وفاق کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ،''وفاقی سطح پر معتوب افسران کو ایسے اداروں میں بھیج دیا جاتا ہے جن کو پرکشش نہیں سمجھا جاتا۔ جبکہ جو منظور نظر بیوروکریٹس ہوتے ہیں ان کو کسٹم، پولیس، وزارت خارجہ اور اسی طرح کے اچھے اداروں میں بھیج دیا جاتا ہے۔‘‘
فضل اللہ قریشی کے بقول ریاست کا پیسہ اس طرح بھی ضائع ہوتا ہے کہ جو افسران منظور نظر نہیں ہوتے ان کو او ایس ڈی بنا دیا جاتا ہے۔ ''اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ریاست سے تنخواہیں تو لیتے رہتے ہیں لیکن وہ کسی طرح کا کام نہیں کرتے۔‘‘