حکیم اللہ محسود زندہ ہیں: سیکیورٹی ذرائع
29 اپریل 2010اس سے پہلے رواں سال کے اوائل میں واشنگٹن اور اسلام آباد حکومتیں کئی بار یہ دعوے کر چکی ہیں کہ پاکستان کی مغربی سرحد کے قریب قبائلی علاقے میں عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں کو ڈرون حملوں سے نشانہ بنائے جانے کے دوران اِس اہم طالبان رہنما کو اُس کے گیارہ ساتھیوں سمیت ہلاک کیا جا چکا ہے۔
دوسری طرف طالبان مسلسل اپنے قائد کے ہلاکت کی اطلاعات کی تردید کرتے رہے ہیں تاہم انہوں نے یہ کہتے ہوئے حکیم اللہ محسود کے زندہ ہونے کا ثبوت پیش کرنے سے انکار کر دیا تھا کہ اس سے طالبان رہنما کی زندگی کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ پاکستان میں سیکیورٹی اداروں کا بھی اب یہی کہنا ہےکہ حکیم اللہ محسود زندہ ہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ وہ عسکریت پسندوں کے خلاف کی جانے والی کارروائیوں میں زخمی ہو چکے ہیں۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ حکیم اللہ محسود کےزندہ ہونے کی اطلاع امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کے لئے ایک دھچکا ہوگا کیونکہ ایک ویڈیو میں اُردن کے کے ڈبل ایجنٹ کے ہمراہ نظر آنے کے بعد اس امریکی ادارے نے طالبان رہنما کومارنے کے لئے کئی ڈرون حملے کئے۔ واضح رہے کہ کہ اُردن کے اس ایجنٹ نے گزشتہ سال 30 دسمبر کو مشرقی افغانستان میں سی آئی اے کے اڈے پر خود کش حملے میں امریکی خفیہ ادارے کے سات اہلکاروں کو ہلاک کر دیا تھا۔ پاکستان میں وفاقی وزیر داخلہ رحمٰن ملک نے اس سال فروری میں کہا تھا کہ ان کے پاس حکیم اللہ محسود کے مارے جانے کی مصدقہ اطلاعات ہیں۔
پاکستان میں افغان اور قبائلی امور کے ماہر رحیم اللہ یوسفزئی کا کہنا ہے کہ حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے حوالے سے یہ ابہام طالبان کے حق میں ہے کیونکہ اس سے اسلام آباد حکومت کو خفت اٹھانا پڑی ہے۔ وہ کہتے ہیں، اس سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ وہاں اب بھی ایسے علاقے موجود ہیں، جو اسلام آباد حکومت کے کنڑول میں نہیں ہیں ۔ رحیم اللہ یوسفزئی کہتے ہیں، ہو سکتا ہے کہ حکیم اللہ محسود مزید کسی کارروائی سے بچنے کے لئے خود سامنے آنے سے گریز کر رہے ہوں۔
پاکستان کے قبائلی علاقوں میں سرگرم طالبان کے رہنما حکیم اللہ محسود کے حوالے سے قومی میڈیا نے کئی بار کہا تھا کہ وہ اِس سال 15 جنوری کو جنوبی وزیرستا ن ایجنسی میں ایک مبینہ امریکی ڈرون حملے میں زخمی ہو گئے اور جب انہیں علاج کی غرض سے کہیں اور منتقل کیا جا رہا تھا تو راستے میں ہی ملتان کے قریب انتقال کر گئے۔ طالبان ذرائع نے بھی اِس سال فروری میں اِس کی تصدیق کی تھی لیکن بعد میں طالبان کے ترجمان اعظم طارق نے اس کی تردید کر دی تھی۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کی خبروں پر اس وجہ سے بھی یقین نہیں کیا جاتا رہا کیونکہ طالبان نے ان کے جانشین کی تقرری کا اعلان نہیں کیا تھا۔ اس سے پہلے جب بیت اللہ محسود کی ہلاکت کی خبریں سامنے آئیں تو طالبان نے فوری طور پر حکیم اللہ محسود کو اپنا رہنما منتخب کر لیا تھا۔ بیت اللہ محسود کا جانشین منتخب ہونے سے پہلےحکیم اللہ محسود تحریک طالبان پاکستان کے نائب امیر رہنے کے ساتھ ساتھ خیبر، کرم اور اورکزئی ایجنسیوں میں طالبا ن کی قیادت کر چکے تھے۔ وہ کچھ عرصہ تک تحریک کےرہنما بیت اللہ محسود کے ڈرائیور کے طور پر بھی کام کرتے رہے ہیں۔
پاکستان کے قبائلی علاقوں میں گزشتہ ایک سال سے ملکی ا فواج کی جانب سے عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائیوں سےطالبان کو کافی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ اس دوران اُن کے سینکڑوں کارکنوں کی ہلاکت کے ساتھ ان کے متعدد ٹھکانوں کو بھی تباہ کیا جا چکا ہے۔
سیکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ طالبان میں اب حکیم اللہ محسود کی اہمیت کم ہو رہی ہے کیونکہ وہ اپنے ساتھیوں سے الگ ہو چکے ہیں۔ دوسری طرف مبصرین کا خیال ہے کہ حکیم اللہ محسود کے مقابلے میں جنوبی وزیرستان میں طالبان رہنما ولی الر حمٰن اور قاری حسین کو اہمیت حاصل ہو رہی ہے کیونکہ وہ خود کش حملوں کے ماسٹر مائنڈ تصور کئے جاتے ہیں۔
رپورٹ: بخت زمان
ادارت: امجد علی