1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’حیض کے پہلے دن خواتین کی چُھٹی ہونی چاہیے‘

13 جولائی 2017

بھارت کی ایک ڈیجیٹل میڈیا کمپنی اپنی تمام خواتین ملازمین کو حیض کے پہلے دن چُھٹی فراہم کرتی ہے۔ یہ چُھٹی اس کمپنی کی پالیسی کا حصہ ہے اور اب حکومت سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ اس چُھٹی کو قانونی حیثیت فراہم کی جائے۔

https://p.dw.com/p/2gT8v
NEW DELHI INDIA MAY 28 Students participate in a rally on World Menstrual Day at Connaught Place
تصویر: Imago/Hindustan Times

ممبئی کی کمپنی کلچر مشین کا کہنا ہے کہ ان کی اس پالیسی کا مقصد خواتین کے حیض سے متعلق معاشرتی رویوں میں تبدیلی لانا ہے۔ اس کمپنی کے مطابق بھارت میں لاکھوں خواتین اور لڑکیوں کو ماہواری کی وجہ سے سماجی تعصب، شعور میں کمی کی وجہ سے صحت کے مسائل اور خود اعتمادی میں کمی کا سامنا رہتا ہے۔

اس کمپنی کی 75 خواتین ملازمین ہیں اور اس نے یہ پالیسی اعلان رواں ماہ یوٹیوب پر ایک ویڈیو پوسٹ کرتے ہوئے کیا تھا۔ اس ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ ملازم خواتین کمپنی کی اس پالیسی اور ’فرسٹ ڈے آف پیریڈ لِیو‘ (ایف او پی) کے بارے میں گفتگو کر رہی ہیں۔

ویڈیو میں اس کمپنی کی ہیومن ریسورسز کی سربراہ خاتون دیولینا ایس ماجھومدار کہتی ہیں، ’’زیادہ تر کے لیے پہلا دن آسان نہیں ہوتا۔ ہم نے محسوس کیا ہے کہ ہمیں اس وقت اس حقیقت کو تسلیم کرنا چاہیے، یہ کوئی شرمندگی کی بات نہیں ہے، یہ زندگی کا حصہ ہے۔‘‘

دوران حیض گھر سے بے دخلی ایک لڑکی کی جان لے گئی

تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن کے مطابق بھارت میں سماجی عقائد کی وجہ سے خواتین کے حیض کے بارے میں کم سے کم بات کی جاتی ہے اور ان مخصوص ایام کے دوران خواتین کو ناپاک تصور کرتے ہوئے ان کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر انہیں مینسز کے دوران بعض اوقات الگ تھلگ اور مخصوص مقامات تک محدود کر دیا جاتا ہے۔ انہیں مخصوص پھلوں یا سبزیوں کو ہاتھ لگانے کی اجازت نہیں ہوتی، انہیں مندروں میں جانے کی اجازت نہیں ہوتی۔

ویڈیو پوسٹ ہونے کے بعد سے اس کو ڈیڑھ لاکھ سے زائد افراد دیکھ چکے ہیں۔ اس ویڈیو میں خواتین ملازمین یہ بتاتی ہیں کہ انہیں اس حوالے سے کن مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایک خاتون ملازم اس حوالے سے مرد سربراہان کو مخاطب کرتے ہوئے کہتی ہیں، ’’کبھی کبھار آپ کو اس حوالے سے تھوڑی سی سمجھ بوجھ کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔‘‘

اس کمپنی نے ’’چینج ڈاٹ او آر جی‘‘ نامی ویب سائٹ پر ایک پٹیشن بھی دائر کر رکھی ہے، جس میں خواتین کے امور کی بھارتی وزیر مانیکا گاندھی اور وزیر برائے ہیومن ریسورسز پرکاش جاویدکار سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ بھی حکومتی سطح پر ایسی ہی پالیسی اختیار کریں۔ ابھی تک اس درخواست پر 25 ہزار سے زائد افراد دستخط کر چکے ہیں۔