حیوانوں میں وائرس کی آٹھ لاکھ اقسام سے انسانوں کو خطرہ
6 جولائی 2021چھ جولائی سن 1985 کو فرانسیسی مائیکرو بیالوجسٹ لوئیس پاستور نے کتوں کے کاٹنے سے لگنے والی بیماری 'ریبیز‘ سے بچاؤ کے لیے ویکسین کا کامیاب تجربہ کیا تھا۔ اس دن کو اب عالمی سطح پر 'ورلڈ زُونوسس ڈے‘ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ 'زُونوسس‘ ان بیماریوں کو کہا جاتا ہے، جو جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوتی ہیں۔
بھارت: گِدھوں کے تحفظ کا منصوبہ
66 ملین سال پرانی عجیب و غریب ’چیز‘ کا راز معلوم کر لیا گیا
’جانوروں کی قريب ايک ملين انواع ناپید ہونے کو ہیں‘
آج کل کورونا وائرس کی عالمی وبا نے دنیا کو جکڑ رکھا ہے۔ سائنسدان اور طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ مستقبل میں وبائی امراض سے بچنے کے لیے وسیع تر اقدامات درکار ہیں۔
انسانوں کو جانوروں کے سینکڑوں وائرس سے خطرہ لاحق
سائنسدان کئی دہائیوں سے خطرناک 'زُونوسس‘ سے تنبیہ کرتے آئے ہیں۔ گزشتہ برسوں میں ایبولا، سارس اور میرس جیسے کئی وائرس تباہی مچاتے آئے ہیں۔ 'ورلڈ بائیو ڈائیورسٹی کونسل‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت جانوروں کے 1.7 ملین وائرس ایسے ہیں، جن کی صحیح طریقے سے شناخت نہیں ہو پائی ہے۔ ان میں سے آٹھ لاکھ ستائیس ہزار وائرس انسانوں میں منتقل ہو سکتے ہیں۔
جنگلی جانوروں کی تجارت 'خطرناک‘
کورونا وائرس کی عالمی وبا کی شروعات ہی سے یہ مطالبات سامنے آ رہے ہیں کہ جنگلی جانوروں کی خرید و فروخت کو رکوایا جائے۔ جن مارکیٹوں میں جنگلی جانوروں کی خرید و فروخت ہوتی ہے، انہیں 'زُونوسس‘ کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ایسی منڈیوں میں مختلف انواع و اقسام کے جانوروں کو ایک دوسرے سے کافی قریب رکھا جاتا ہے، جس سے وائرس کی منتقلی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
اس ضمن میں چین بالخصوص تنقید کی زد میں رہتا ہے۔ کورونا وائرس کی عالمی وبا کے تناظر میں بیجنگ حکومت نے جنوری سن 2020 میں جنگلی جانوروں کی تجارت پر پابندی بھی عائد کی تھی مگر اس پر زیادہ عرصہ عمل درآمد نہ ہو سکا۔
ماحولیاتی تنظیم 'ورلڈ وائڈ فنڈ فار نیچر‘ (ڈبلیو ڈبلیو ایف) کے مطابق جنگلی جانوروں کی غیر قانونی اور غیر منظم تجارت کو روکنے کے علاوہ منڈیوں، فارمز اور ریستورانوں کی نگرانی بھی اہم ہے۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف نے مزید کہا ہے کہ متعلقہ حکام، جو ایسی تجارت کی نگرانی کرتے ہیں اور قانون نافذ کرنے کے ذمہ دار ہیں، ان کو فنڈنگ اور رقوم کی قلت کا سامنا ہے۔
وبائی امراض سے تحفظ ایک عالمی ذمہ داری ہے۔ ڈبلیو ڈبلیو ایف کا کہنا ہے کہ عالمی برادری کو وبائی امراض کی روک تھام کے لیے مختلف ملکوں کی حکومتوں اور حکام کی صلاحیتوں میں اضافے کے لیے عملی اقدامات درکار ہیں۔
ع س / ا ا (الگزینڈر فروئنڈ)