خادم حسین رضوی کی نماز جنازہ ادا کر دی گئی
21 نومبر 2020اپنے پہلے بیان میں تحریک لبیک پاکستان کے نئے سربراہ سعد رضوی نے اپنے والد کے مشن کو جاری رکھنے کا اعلان کیا۔ نماز جنازہ کے بعد مولانا خادم حسین رضوی کی تدفین ملتان روڈ پر واقع چوک یتیم خانے کے قریب ایک دینی مدرسے میں کی گئی۔
اس سے پہلے لاہور کے گریٹراقبال پارک میں مینار پاکستان کے قریب وسیع و عریض گراؤنڈ میں ادا کی جانے والی خادم حسین رضوی کی نماز جنازہ میں ملک کے مختلف حصوں سے آنے والے لوگوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ اس موقعے پر سیکورٹی کے خصوصی حٖفاظتی انتظامات کیے گئے تھے۔
جنازے میں ہزارہا افراد کی شرکت
مولانا خادم حسین رضوی کی میت کو ایک ایمبولینس کے ذریعے ان کی سبزہ زار میں واقع ان کی رہائش گاہ سے مینار پاکستان پہنچایا گیا۔
اس موقعے پر گاڑیوں اور موٹر سائکلوں پر سوار لوگوں کے علاوہ پیدل چلنے والے لوگوں کی بڑی تعداد بھی میت کے ساتھ چلنے والے قافلے میں شریک رہی، تین ایمبولینسوں کے جلو میں چلنے والا یہ قافلہ سمن آباد، چوبرجی، ایم اے او کالج اور لوئر مال سے ہوتا ہوا چند کلومیٹر کا فاصلہ چار گھنٹوں میں طے کرکے مینار پاکستان پہنچا۔
قافلے میں شریک لوگ راستے میں نعرے بازی کرتے رہے۔ ایک ایمبولینس میں خادم حسین رضوی کی میت اور باقی دو ایمبولینسوں میں مولانا خادم حسین رضوی کے اہل خانہ اور دیگر رشتے دار موجود تھے۔
جلوس کے راستوں کی نگرانی سیف سٹی میں موجود کنٹرول روم کے سی سی ٹی وی کیمروں کی مدد سے کی گئی۔ اس موقعے پر سفید کپڑوں میں ملبوس اہلکار بھی لوگوں میں موجود رہے۔
گزشتہ رات تحریک لبیک پاکستان کے رہنماؤں کے ساتھ ہونے والی ضلعی انتظامیہ کی ایک میٹنگ میں جنازے کے روٹ کی تفصیلات کو طے کیا گیا تھا۔ اس میٹنگ کے بعد سیکورٹی کے لیے ایک ہزار سے زائد پولیس اہلکاروں کو جنازے کی جگہ اور راستے پر تعینات کیا گیا تھا۔
نماز جنازہ تحریک لبیک پاکستان کے کارکنوں نے میت والی ایمبولینس کو اپنے حصار میں لیے رکھا اور انہوں نے خود بھی سیکورٹی کے انتظامات سنبھالے۔
جنازے کے لیے اقدامات
ایک روز پہلے حکومت نے سرکاری ہیلی کاپٹر میں میت کو گریٹر اقبال پارک پہنچانے کی پیشکش کی تھی لیکن تحریک لیبیک پاکستان کے رہنماؤں نے اس تجویز سے اتفاق نہیں کیا۔
مینار پاکستان کے اطراف میں کچھ فاصلے پر شرکا جنازہ کی گاڑیوں کے لیے خصوصی پارکنگ سٹینڈ بنائے گئے اور جلوس کے راستوں پر ٹریفک کی اضافی نفری تعینات کی گئی تھی۔
اس موقعے پر جلوس کے راستوں اور اس سے ملحقہ علاقوں کو عام ٹریفک کے لیے بند کرکے آمدو رفت کے لیے شہریوں کو متبادل راستوں کو اختیار کرنے کے لیے کہا گیا۔
یہ بھی پڑھیے: خادم حسین رضوی کون تھے؟
میٹرو بس کو بھی شاہدرہ سے ایم اے او کالج تک بند رکھا گیا۔ جلوس کے راستوں اور مینار پاکستان کے اطراف میں واقع مارکیٹیں بھی بند رہیں۔
بریلوی مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے 54 سالہ خادم حسین رضوی پچھلے کچھ دنوں سے بیمار تھے، انہیں تیز بخار اور سانس لینے میں دشواری کا سامنا تھا۔
جمعرات کے روز، انیس نومبرکو ان کی طبیعت زیادہ خراب ہونے پر پہلے انہیں علامہ اقبال ٹاون کے ایک نجی ہسپتال پھر شیخ زید ہسپتال لے جایا گیا لیکن وہ جانبر نہ ہو سکے اور ڈاکٹروں نے ان کی موت کی تصدیق کر دی۔
ان کی وفات کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور تحریک لبیک پاکستان کے کارکن سبزہ زار میں واقع ان کے گھر کے باہر جمع ہونا شروع ہو گئے۔ ان کی نماز جنازہ میں شرکت کے لیے ملک کے مختلف حصوں سے لوگ ایک دن پہلے ہی لاہور پہنچنا شروع ہو گئے تھے۔
یہ بھی پڑھیے: پاکستانی تارک وطن علی حسن فرانس میں مسلح حملہ آور کیسے بنا؟
پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان، پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق سمیت ملک کی مذہبی اور سیاسی شخصیات نے علامہ خادم حسین کی موت پر افسوس کا اظہار کیا۔
تحریک لبیک کے بانی خادم حسین رضوی اٹک کے علاقے پنڈی گھیپ کے نزدیک واقع نکہ توت نامی ایک گاوں سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے پس ماندگان میں ایک بیوہ، دو بیٹے اور تین بیٹیاں شامل ہیں۔ دو ہزار چھ میں راوالپنڈی سے لاہور آتے ہوئے وہ گوجرانوالہ کے نزدیک ایک حادثے کا شکار ہو گئے تھے۔ اس حادثے کے بعد انہیں چلنے پھرنے کے لئے ویل چئیر استعمال کرنا پڑتی تھی۔
تحریک لبیک کا مستقبل کیا ہو گا؟
مولانا خادم حسین رضوی کی وفات کے پاکستان کے سیاسی حالات پر کیا اثرات ہوں گے اس سوال کے جواب میں پاکستان کے معروف تجزیہ نگار ڈاکٹر حسن عسکری نے ڈی ڈبلیو کو ایک ٹیلی فون انٹرویو میں بتایا کہ پاکستان کی سیاست میں مذہب کا رول ہمیشہ سے رہا ہے، پاکستان میں بعض اوقات حکومتوں کی طرف سے بھی مذہبی کارڈ استعمال کیا جاتا رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیے: پیرس حملے میں ملوث پاکستانی تحریک لبیک پارٹی سے متاثر تھا
عسکری کے بقول تحریک لبیک پاکستان کا شمار ان مذہبی سیاسی جماعتوں میں ہوتا ہے جو چند سال پہلے ہی پاکستان کے سیاسی افق پر ابھریں اور انہیں ان کے ہم خیال حلقوں کی طرف سے بہت نمایاں پذیرائی ملی۔ ڈاکٹر عسکری کے بقول اب دیکھنا یہ ہو گا کہ تحریک لبیک پاکستان کی نئی قیادت کیا فیصلے کرتی ہے اور کس طرح کی پالیسیاں اپناتی ہے۔
اس سوال کہ جواب میں کہ جنازے میں لاکھوں افراد کی شرکت سے عالمی سطح پر کیا یہ پیغام جائے گا کہ مسلمان اپنے دینی معاملات میں بہت حساس ہیں، ڈاکٹر عسکری کا کہنا تھا کہ دراصل پاکستان اور مغرب کے مذہبی تصورات میں بہت فرق ہے۔
ان کے نزدیک اس ضمن میں بہتر حکمت عملی یہ ہو سکتی ہے کہ ایک بامقصد ڈائیلاگ اور سفارتی کوششوں سے مغرب کو اس بات پر قائل کیا جانا چاہیے کہ آزادی اظہار اور مذہبی حساسیت میں ایسے توازن کی ضرورت ہے جس سے کسی کی دل آزاری نہ ہو۔