خدارا ’بیچ دو‘ کے نعرے کو ترک کر دیں!
21 جون 2020ہم یہ حقیقت نہیں جانتے کی حتمی طور پر کتنے کھانے پکائے گئے لیکن یہ واضح ہے کہ جب وزیر اعظم عمران خان صاحب مزیدار کھانا تناول فرما رہے تھے، تو اسی وقت اسٹیل ملز کے سینکڑوں ملازمین اور ان کے گھر والے دو وقت کی روٹی کے لیے پریشان تھے۔ لیکن ہمارے حاکم طبقات کو اس سے کوئی سروکار نہیں۔ یہاں تو جو آتا ہے وہ سرکاری اداروں کو بیچ کر ملک کو سنوارنے کی بات کرتا ہے، جو بھی آتا ہے، وہ یہی نعرہ لگاتا ہے، بیچ دو!
بیچ دو کے اس نعرے کے پیچھے ایک دلیل یہ ہوتی ہےکہ سرکاری ادارے منافع میں نہیں چل رہے لیکن کیا وجہ ہے کہ ستر کی دہائی تک یہ سارے ادارے زبردست منافع میں چل رہے تھے اور اب نہیں؟
اسٹیل ملز، پی آئی اے، ریلوے اور پی ٹی سی ایل سمیت کئی اداروں کے اپنے اسکول، ہسپتال اور دوسرے رفاعی ادارے چل رہے تھے۔ کچھ کی تو رہائشی کالونیاں بھی تھیں۔ یقیناﹰ یہ سب اسی لیے ممکن تھا کیوں کہ ادارے منافع میں چل رہے تھے۔ پی آئی اے کے لوگوں نے تو ایمریٹس ایئر لائنز کی بنیاد رکھنے میں بھی اپنا اہم کردار ادا کیا۔ لیکن جب اسی کی دہائی میں سرکاری اداروں کو بیچنے کا بھوت سوار ہوا، تو جان بوجھ کر ان اداروں کو خسارے کی طرف دھکیلا گیا تا کہ ان کی نجکاری کا جواز فراہم کیا جا سکے۔
خسارے کا سارا الزام ملازمین پر ڈال دیا جاتا ہے کہ وہ بہت بڑی تعداد میں ہیں۔ حقیت یہ ہے کہ ان اداروں میں جان بوجھ کر ایسے افراد کو اعلی عہدوں پر بھرتی کیا گیا، جنہوں نے اس کا جنازہ نکال کر پرائیوٹ سرمایے کی خدمت کی۔ یہ عجیب بات ہے کہ شاہد خاقان عباسی پی آئی اے کے سربراہ بنے اور ادارے کا زوال شروع ہو گیا اور کچھ ہی عرصے بعد ان کی اپنی نجی فضائی کمپنی ترقیوں کی منازل طے کرنے لگی۔ پی پی پی کی گزشتہ دور حکومت میں ایک ایم ڈی نے پی آئی اے کے منافع بخش روٹس ایک غیر ملکی کمپنی کو بیج دیے اور بعد میں اس کمپنی میں نوکری حاصل کر لی۔ تو الزام غریب ملازمین نہیں بلکہ ایسے اعلی عہدیداروں پر آنا چاہیے۔
محترمہ بے نظیر بھٹو ایک دلیل یہ تھی کہ ہم نجکاری اس لیے کر رہے ہیں تا کہ سرکاری ادارے بیچ کر پیسہ آئے اور ہم قرضہ اتاریں لیکن تلخ حقیقت یہ ہے کہ اسی کی دہائی میں جب نجکاری شروع کی گئی تو ہمارا قرض شاید بیس بلین ڈالر بھی نہیں تھا۔ لیکن سینکڑوں کی تعداد میں سرکاری ادارے بیچنے کے بعد آج یہ قرض ایک سوگیارہ بلین ڈالر سے بھی زیادہ ہے۔
نجکاری کے لیے ایک دلیل یہ بھی دی جاتی ہے کہ اس سے سرمایہ کاری آئے گی اور صنعتیں لگیں گی۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں صنعتیں اسی کے دہائی سے لے کر اب تک کم ہوئی ہیں۔ سرکاری سیمنٹ کی فیکڑیاں ہوں یا دوسرے ادارے، نجکاری کے بعد ان کی صنعتی گنجائش کو کم کر کے ختم کیا گیا اور پھر وہاں رہائشی کالونیاں بنائی گئیں، صنعتیں نہیں لگائی گئیں۔ اس سے بے روزگاری میں بھی اضافہ ہوا اور حکومتی آمدن بھی کم ہوئی۔
بیچ دو کا نعرے لگانے والے یہ دلیل بھی دیتے ہیں کہ سرکاری اداروں کی کارکردگی اچھی نہیں ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ جن اداروں کی حکومت کارکردگی اچھی رکھنی چاہے، وہ اس کی کارکردگی اچھی رکھتی ہے اور جس کی نہ رکھنا چاہے، نہیں رکھتی۔
مثال کے طورپر وزیر اعظم کو جب ایئرپورٹ جانا ہوتا ہے تو کیسے آنا فانا سرکاری اہلکار ان کے لئے راستہ بناتے ہیں اور ایک گھنٹے کا سفر دس منٹ میں طے ہو جاتا ہے۔ وزیر اعظم ہاؤس کا فرش اتنا صاف ہوتا ہے کہ وہاں انسان اپنا چہرہ دیکھ لے۔ وہاں کام کرنے والے سارے سرکاری ملازم ہوتے ہیں۔ تو ہمارے اسکول، ہسپتال، پارک اور دوسرے عوامی مقامات بھی اسی طرح صاف کیوں نہیں رکھے جا سکتے۔
بیچ دو کا نعرے لگانے والوں سے کہنا یہ ہے کہ اگر کارکردگی ہی معیار ہے، تو پولیس کا ادارہ کرپشن سے بھر پور ہے۔ پارلیمنٹ میں قانون سازی کم اور عزتیں زیادہ اُچھالی جاتی ہیں۔ ہماری عدالتوں میں چودہ لاکھ سے زیادہ مقدمات زیر التوا ہیں۔ بعض اوقات فیصلے مدعی کے مرنے کے بعد ہوتے ہیں۔ ہماری طاقتور فوج کا یہ حال ہے کہ آپریشن جبرالڑ ناکام ہوا۔ اکتہر میں نوے ہزار سے زیادہ فوجیوں نے ہتھیار ڈالے۔ کارگل پر پسائی ہوئی۔ تو پھر کیا خیال ہے نعرے لگایا جائے کہ انہیں بھی بیچ دو؟
لیکن یہاں پر یہ نعرہ لگایا جاتا ہے کہ اب ماضی کی غلطیوں سے سیکھا جا رہا ہے اور ہم ان اداروں کے لیے بیچ دو کا نعرہ نہیں لگا رہے۔ یہی اصول ہمیں تمام سرکاری اداروں پر لاگو کرنا چاہیے اور بیچ دو کے نعرے کو ترک کر دینا چاہیے۔ اس سے روزگار بھی بچے گا، حکومت کو آمدن بھی حاصل ہو گی اور صنعتی ترقی بھی ممکن ہو سکے گی۔ خدارا! بیچ دو کے نعرے کو ترک کریں۔