خلیج فارس میں امریکہ ایران میں بڑھتی کشیدگی
14 جنوری 2012خلیج فارس میں اب تک دو بار ایرانی جنگی کشتیاں امریکی بحریہ کے جہازوں کے قریب پہنچ کر واپس لوٹی ہیں۔ امریکی بحریہ کے اہلکار نے ان واقعات کو صرف ہراساں کرنے کی ایک کوشش قرار دیا۔ ایرانی بحریہ کی تین جنگی کشتیاں گزشتہ ہفتے چھ جنوری کے روز امریکی جنگی بحری جہاز USS New Orleans کے تقریباً پانچ سو گز کی دوری کے فاصلے تک پہنچی تھیں۔ امریکی جنگی جہاز پر موجود نیوی اہلکاروں کو ان کشتیوں پر بیٹھے باوردی اہلکاروں کے پاسAK-47 خود کار رائفلز بھی دکھائی دی رہی تھیں۔ امریکی نیوی نے ان کشتیوں کی آمد کو سنگین نہیں قرار دیا لیکن یہ بڑھتے تناؤ کی عکاس ہیں۔
خلیج فارس میں ایرانی جنگی کشتیوں کا امریکی بحریہ کے جنگی جہاز کے قریب پہنچنے کا دوسرا واقعہ کویت ساحل کے قریب پیش آیا۔ امریکی بحریہ کے کوسٹ گارڈ کٹر بحری جہاز Adak USCGC کے قریب بھی ایرانی جنگی کشتیاں پہنچی تھیں۔ ان جنگی کشتیوں میں سے ایک پر بھاری مشین گن بھی نصب تھی جبکہ ایرانی بحریہ کے اہلکار AK-47 تھامے ہوئے تھے۔
جمعے کے روز اوباما انتظامیہ کی جانب سے ایران کو ایک بار پھر متنبہ کیا گیا کہ وہ خلیج فارس کے تجارتی سمندری راستے کو بند کرنے کی کوئی کوشش نہ کرے کہ جس سے خلیجی ممالک سے خام تیل کی سپلائی میں رکاوٹ پیدا ہو سکے۔ اوباما انتظامیہ کے ترجمان نے بندش کی صورت میں کوئی واضح امریکی حکمت عملی کا جواب نہیں دیا۔ لیکن دوسری جانب امریکہ کے فوجی اور بحری اہلکار ایسی صورت میں فوجی ایکشن کے امکانات کو رد نہیں کر رہے ہیں۔
سات جنوری کو ٹیلی وژن چینل سی بی ایس (CBS) کے پروگرام فیس دی نیشن (Face the Nation) میں امریکی فوج کے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل مارٹن ڈیمپسی (Martin Dempsey) کا بھی کہنا تھا کہ ایران مسلسل اسلحے سازی میں اپنے مالی ذخائر کو استعمال کر رہا ہے اور یہ اسلحہ آبنائے ہرمز کو بند کرنے میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ جنرل ڈیمپسی کا مزید کہنا تھا کہ آبنائے ہرمز کو بند کرنے کی کسی بھی ایرانی کوشش کو شکست دے دی جائے گی۔ انہوں نے انٹرویو لینے والے کو بتایا کہ ایران ایسا کرنے کی پوزیشن میں ہے لیکن امریکہ فوری کارروائی کرکے آبنائے ہرمز کو دوبارہ کھول دے گا۔
امریکی وزیر دفاع لیون پنیٹا کا بھی کہنا ہے کہ آبنائے ہرمز کی صورت حال پر مسلسل نگاہ رکھی جا رہی ہے اور تمام آپشن موجود ہیں۔ پنیٹا کے مطابق امریکہ کسی بھی صورت حال سے نمٹنے کے لیے تیار ہے۔
رپورٹ: عابد حسین
ادارت: امتیاز احمد