1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

خواتین اور سپورٹس: عالمی اثرات کے حامل قانون کی نصف صدی

23 جون 2022

کھیلوں کی دنیا اور خواتین سے متعلق اس امریکی قانون سازی کو جمعرات تیئیس جون کے روز ٹھیک پچاس برس ہو گئے، جو عالمی سطح پر وسیع تر اثرات کا باعث بنی۔ خواتین کھلاڑیوں سے متعلق یہ سنگ میل قانون ’ٹائٹل نائن لاء‘ کہلاتا ہے۔

https://p.dw.com/p/4D8d0
تصویر: Colourbox

بہت سے اولمپیئن کھلاڑیوں اور سپورٹس کی دنیا کے کئی مؤرخین کے مطابق Title IX Law کہلانے والا یہ تاریخی قانون امریکہ میں 23 جون 1972ء کے روز منظور کیا گیا تھا اور اس کے بعد ایک ایسا رجحان شروع ہوا کہ دنیا بھر میں کھیلوں کے مقابلوں میں خواتین اور لڑکیوں کی شرکت کا عالمی منظر نامہ پوری طرح بدل گیا۔

بھارت، خواتین کھلاڑیوں کی جنسی ہراسانی کے واقعات میں اضافہ

آج سے ٹھیک نصف صدی قبل امریکہ میں کی جانے والی اس قانون سازی میں طے یہ کیا گیا تھا کہ وہ تمام تعلیمی منصوبے، جن کے لیے مالی وسائل واشنگٹن میں وفاقی حکومت مہیا کرے، ان تمام پروگراموں میں خواتین کو بھی شرکت کے مساوی حقوق دینا لازمی ہو گا۔ ان تعلیمی شعبوں میں ہر قسم کے کھیل بھی شامل تھے۔

سپورٹس مقابلوں میں خواتین کی شرکت کے حوالے سے انقلاب

امریکہ میں تعلیم سے متعلق شماریات کے قومی مرکز کے مطابق ملکی سطح پر یہ قانون سازی اتنا بڑا سنگ میل تھی اور عالمی سطح پر بہت سے معاشروں میں اس کے بالواسطہ اثرات اتنے جامع تھے کہ 23 جون 1972ء کے بعد سے دنیا کی نصف آبادی کی سپورٹس پروگراموں اور مقابلوں میں شرکت کے حوالے سے جیسے انقلاب آ گیا۔

خواتین افغان ایتھلیٹس، اپنے ہی ملک میں غیر محفوظ

Japan Tokio | Olymympische Ringe
تصویر: Koji Sasahara/AP/picture alliance

فرانسیسی وزیر مسلم خواتین فٹ بالروں کے حجاب پہننے کے حق میں

اس انقلابی عمل کی ایک مثال یہ ہے کہ ٹھیک پانچ عشرے قبل منظور کیے جانے والے اس قانون کے بعد سے اب تک ہائی اسکول کی سطح پر لڑکیوں کی کھیلوں میں شرکت 1000 فیصد سے بھی زیادہ ہو چکی ہے۔ ویمن سپورٹس فاؤنڈیشن نامی تنظیم کے مطابق گزشتہ نصف صدی کے دوران کالجوں اور یونیورسٹیوں کی سطح کے سپورٹس پروگراموں میں لڑکیوں اور خواتین کی شرکت میں بھی 500 فیصد سے زائد کا اضافہ ہو چکا ہے۔

سپورٹس کے لیے انتہائی دور رس نتائج

اسی تاریخی قانون سازی کے نتیجے میں کھیلوں کے اولمپک مقابلوں میں خواتین کی شرکت کے تناسب میں بھی زبردست اضافہ ہوا۔ امریکہ کی اولمپک اور پیرالمپک کمیٹی کی چیف ایگزیکٹیو سارہ ہِرش لینڈ کہتی ہیں، ''پچاس برس قبل اس قانون کی منظوری کے امریکہ میں مختلف کھیلوں کی قومی ٹیموں پر انتہائی دور رس اثرات مرتب ہوئے۔‘‘

کشمیری لڑکیوں کا کھیلوں میں کیرئیر اور درپیش مشکلات

'ٹائٹل نائن‘ نامی قانون کے بعد سے امریکی گرمائی اولمپک مقابلوں کے لیے ٹیموں میں خواتین کی شرکت 310 فیصد زیادہ اور سرمائی اولمپک مقابلوں میں شرکت 300 فیصد زیادہ ہو چکی ہے۔

یہ بھی اسی قانون ہی کا نتیجہ تھا کہ 1972ء میں اگر سمر گیمز میں خواتین کے مقابلوں کی تعداد 43 تھی، تو 1992ء تک وہ بڑھ کر 86 ہو چکی تھی۔ اسی طرح ونٹر گیمز میں ویمن ایونٹس کی تعداد بھی 1972ء میں صرف 12 تھی، جو اگلے بیس سال میں تقریباﹰ دو گنا ہو کر 23 ہو چکی تھی۔

اولمپکس میں ویمن میراتھون کی شمولیت کے لیے جدوجہد

کیتھرین سوئٹزر کا شمار امریکہ میں ویمن میراتھون میں حصہ لینے والی اولین خواتین ایتھلیٹس میں ہوتا ہے۔ 1967ء تک بوسٹن میراتھون میں رجسٹرڈ ایتھلیٹس کے طور پر خواتین کی شرکت پر پابندی تھی۔ سوئٹزر نے اس پابندی کو عدالت میں چیلنج کیا اور وہ یہ مقدمہ جیت بھی گئیں۔ یوں وہ ایسی پہلی امریکی خاتون ایتھلیٹ بنیں، جنہوں نے امریکہ کی بوسٹن میراتھون میں حصہ لیا تھا۔

فرانسیسی آئس اسکیٹنگ فیڈریشن، دہائیوں تک جاری رہنے والی جنسی زیادتیاں

بعد میں انہوں نے اولمپک مقابلوں میں خواتین ایتھلیٹس کی میراتھون کی شمولیت کے لیے بھی طویل جدوجہد کی اور 1984ء میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ اولمپک مقابلوں میں ویمن ایتھلیٹس کی میراتھون بھی شامل کر لی گئی۔

عالمی سطح پر 'ٹائٹل نائن‘ کے اثرات

امریکہ میں کھیلوں کے ریاستی اور قومی مقابلوں کے ساتھ ساتھ جب اولمپکس جیسے عالمی مقابلوں میں بھی خواتین کی مساوی بنیادوں پر شمولیت کا راستہ کھلا، تو اس کے اثرات دیگر ممالک پر بھی پڑنے لگے اور وہاں بھی سپورٹس مقابلوں میں عورتوں کو مردوں کے برابر شمولیت کے مواقع ملنے لگے۔

’امی، ظالموں کے گناہ بےنقاب کرنا‘: خاتون ایتھلیٹ نے خود کشی کر لی

عالمی سطح پر موجودہ اعداد و شمار کا بہت اطمینان بخش اور خوش کن ہونا یوں ثابت ہوتا ہے کہ ریوڈی جنیرو کی سمر گیمز میں حصہ لینے والے تمام ایتھلیٹس میں خواتین کھلاڑیوں کا تناسب 45 فیصد تھا۔ اس کے بعد 2020ء میں ہونے والے ٹوکیو اولمپکس میں لڑکیوں اور خواتین کی شمولیت مزید بڑھ کر 48.7 فیصد ہو چکی تھی۔

اسی لیے ویمن سپورٹس فاؤنڈیشن کو اب امید یہ ہے کہ 2024ء میں ہونے والے اگلے گرمائی اولمپک مقابلوں میں پہلی مرتبہ یہ بھی ممکن ہے کہ ان میں حصہ لینے والے کھلاڑیوں کی کل تعداد میں خواتین کا تناسب 50 فیصد ہو جائے گا۔

م م / ع ا (روئٹرز)