خواتین کی سلامتی کے لیے اقدامات کیے جائیں، مودی سے مطالبہ
3 فروری 2018دہلی کمیشن برائے خواتین (DCW) کی سربراہ سواتی جے ہند نے ملکی وزیراعظم نریندر مودی کو خط روانہ کیا ہے اور اُس میں مطالبہ کیا ہے کہ نئی دہلی کی حدود میں خواتین کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے سخت تادیبی اقدامات وقت کی ضرورت ہیں۔ نئی دہلی میں حال ہی میں ایک آٹھ ماہ کی بچی کے ریپ کے بعد عام لوگوں اور انسانی حقوق کے لیے سرگرم افراد میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔
نئی دہلی: خواتین کے خلاف جرائم، لیڈیز پولیس کا خصوصی اسکواڈ
دس سالہ بھارتی لڑکی کا تین مردوں کے ہاتھوں تین ماہ تک ریپ
بھارت میں سو سالہ خاتون کا ریپ، معمر خاتون انتقال کر گئیں
نئی دہلی، ’خواتین کے مصائب کم نہ ہوئے‘
سواتی نے اپنے خط میں یہ بھی لکھا ہے کہ بچوں کے ساتھ ہونے والی جنسی زیادتی کے بعد اب وہ محسوس کرنے لگی ہیں کہ اِن بچوں کے ساتھ ساتھ اُن کو بھی جنسی زیادتی کا سامنا ہے۔ انہوں نے وزیراعظم کو لکھے گئے خط میں ایسے واقعات کے اعداد و شمار بیان کرنے کے علاوہ پانچ تجاویز بھی تحریر کی ہیں۔ ان کے مطابق:
ا۔ ایسے افراد کو سخت ترین سزا دی جائے جو بچوں کے ساتھ جنسی زیاتی کرتے ہیں اور ایسے مقدمات کی عدالتی کارروائی چھ ماہ میں مکمل ہونی چاہیے۔
۲۔ نئی دہلی کی موجودہ پولیس فورس میں چھیاسٹھ ہزار اضافی پولیس اہلکار بھرتی کیے جائیں تا کہ دہلی میں جرائم کے تدارک کے لیے پولیس کی نگرانی مزید بہتر ہو سکے۔
۳۔ نئی دہلی کے تمام تھانوں میں مجرموں اور جرائم کو ٹریک کرنے کے نظام ( CCTNS) کو جلد از جلد نافذ کیا جائے۔
۴۔ جنسی زیادتی کے مقدمات کا بغیر تاخیر سے فیصلہ کرنے کے لیے مزید ’اسپیڈی عدالتیں‘ قائم کی جائیں تا کہ پولیس بھی ایسے واقعات کی جلد ازجلد تفتیش مکمل کر کے اپنی رپورٹ جج کے سامنے پیش کر سکے۔
۵۔ پولیس کے تفتیشی مراکز میں فورینزک لیبارٹریوں کی موجودہ حالت کو مزید بہتر بنایا جائے تا کہ تفتیشی عمل میں بھی پیش رفت ممکن ہو سکے۔
سواتی جے ہند نے وزیراعظم سے استدعا کی کہ اُن کی تجاویز پر عمل کرنے سے بہتری کی امید ممکن ہے۔ انہوں نے یہ بھی تحریر کیا کہ یہ اُن کی ذمہ داری ہے کہ وہ اُن سمیت تمام خواتین اور لڑکیوں کو تحفظ کا یقین دلائیں۔
دہلی کمیشن برائے خواتین کی سربراہ نے اپنے خط میں یہ بھی واضح کیا کہ خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات میں اضافہ اس لیے ہو رہا ہے کہ ایسا کرنے والوں کو قانون کا کوئی ڈر یا خوف نہیں کیونکہ گھناؤنے جرائم کے ارتکاب کے بعد بھی سست عدالتی کارروائی کے دوران اُن کے بچنے کا امکان موجود رہتا ہے۔