خواجہ سراؤں کی شناخت کا سفر
3 جولائی 2022ثوبیہ چھ سال کی تھیں، جب انہیں احساس ہوا کہ وہ بظاہر جیسی نظر آرہی ہیں حقیقت میں ویسی نہیں۔ ثوبیہ میں ان خصوصیات کو ان کے والدین نے بھی محسوس کیا۔ مگر معاشرتی عمومی رویوں کی طرح انہوں نا تو ثوبیہ کو چھپا کر گھر میں رکھا اور نا ہی تنہا چھوڑا۔ ثوبیہ نے پندرہ سال کی عمر میں آپریشن کے ذریعے اپنے جسم کو وہ رنگ دیا، جس کا تقاضا ان کی روح ان سے کر رہی تھی۔ ثوبیہ بائیس سال کی ہیں۔ وہ بی ایس مکمل کرنے کے بعد اس وقت پشاور میں خواجہ سراؤں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی بلیو وین نامی ایک تنظیم کی وائس پریذیڈنٹ ہیں۔
خواجہ سراؤں کے تحفظ کے لیے 2018ء میں بنایا گیا ایکٹ خواجہ سراؤں کو نادرا میں اپنی رجسٹریشن کے لیے ایک واضح راستہ فراہم کر رہا ہے اور ایسے خواجہ سرا جن کے لیے والدین کی شناخت ایک سوال تھی ان کو گرو کے نام پر رجسٹریشن کی سہولت میسر ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا کوئی بھی خود کو کسی بھی جنس کے طور پر رجسٹر کروا سکتا ہے؟ کیا جنس کی تشخیص کے لیے میڈیکل ٹیسٹ ہونا ضروری نہیں؟
میڈیکل ٹیسٹ کی شرط نہیں ہونی چاہیے، جولی
جولی پاکستان میں خواجہ سرا کمیونٹی کی ایک مضبوط آواز سمجھی جاتی ہیں۔ جولی کا کہنا ہے کہ میڈیکل ٹیسٹ کی شرط بے معنی ہے کیونکہ اپنی جنس کی شناخت کا حق ہر شخص کو خود حاصل ہونا چاہیے۔ جولی گرو کلچر کے خلاف اٹھنے والی ایک واضح آواز ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ خواجہ سرا کمیونٹی میں گرو کلچر سراسر حاکمیت ہے، ''میں نے جب جب گرو سسٹم کے خلاف آواز اٹھائی ، مجھے با اثر گروؤں کی جانب سے سخت رد عمل کا سامنا کرنا پڑا۔ مجھے جیل بھی جانا پڑا اور میری آواز کو دبانے کے لیے مجھے پیسے کا لالچ بھی دیا گیا۔‘‘ جولی کے مطابق 2018ء کا ایکٹ خواجہ سرا کی فلاح اور تحفظ کے لیے نہیں بلکہ ہم جنس پرستی کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے بنایا گیا ہے۔
نادرا کے بہانے
2018ء ایکٹ کے بعد سے اب تک ملنے والے اعداد وشمار کے مطابق نادرا سے اپنی نئی جنسی شناخت کے تحت کارڈ حاصل کرنے والے افراد کی تعداد 28 ہزار کے لگ بھگ ہے۔ مرد سے خاتون بننے والے افراد کی تعداد تقریبا 16ہزار جبکہ خاتون سے مرد بننے والے افراد کی تعداد 12 ہزار سے زائد ہے۔ یہاں یہ بات اہم ہے کہ ان افراد نے نادرا سے اپنی نئی جنسی شناخت کے تحت کارڈ لینے کے لیے رابطہ کیا مگر کسی بھی میڈیکل ٹیسٹ کے بغیر۔ مرد سے خواجہ سرا بننے والے 9 افراد نے رپورٹ کی۔ خواجہ سرا سے مرد جنس میں تبدیل ہونے والے افراد کی تعداد 21 اور خاتون جنس کی طرف آنے والے افراد کی تعداد 9 رہی۔ ثوبیہ خان اس حوالے سے دعوی کرتی ہیں کہ اس ایکٹ کے آنے کے بعد بھی خواجہ سرا نادرا سے با آسانی اپنا کارڈ حاصل نہیں کر پاتے۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کے تین ساتھیوں کے پاس دو دو سال پرانے ٹوکن موجود ہیں مگر ہر بار نادرا آفس کا عملہ کوئی بہانہ بنا دیتا ہے اور ان کو کارڈ جاری نہیں کر رہا۔
’ایکٹ خواجہ سرا برادری کی شناخت مٹا رہا ہے‘
الماس بوبی کا تعلق اسلام آباد سے ہے اور خواجہ سرا کمیونٹی کے حقوق کے لیے بہت سالوں سے کام کر رہی ہیں، ''میں نے پہلی بار خواجہ سرا کی جنسی تشخیص کے لیے میڈیکل ٹیسٹ کی بات 2009ء میں سپریم کورٹ میں ایک پٹیشن دائر کر کے کی تھی اور میں آج بھی اسی بات پر قائم ہوں۔ خواجہ سرا یا ہیجڑے کا لفظ بھارت میں ان افراد کے لیے استعمال کیا جاتا تھا، جنہیں نامرد کر دیا جاتا تھا اور زنان خانے کی ذمہ داری سونپی جاتی تھی۔ پاکستان میں اب جو خود کو خواجہ سرا کہلاتا ہے وہ اس تعریف پر پورا نہیں اترتا۔ اس لیے اصل خواجہ سرا نا تو سامنے ہیں اور نا ہی انہیں حقوق مل رہے ہیں۔ 2018ء کا ایکٹ میڈیکل کی تشخیص کے بغیر کسی کو بھی نادرا کارڈ دے کر خواجہ سرا کمیونٹی کی اصل شناخت مٹا رہا ہے‘‘
گرو کلچر
الماس بوبی کے مطابق گرو پر انسانی اسمگلنگ جیسے الزام لگانا غیر انسانی اور غیر قانونی عمل ہے۔ بوبی کا کہنا ہے کہ جب ٹرانس جینڈر کو اس کے اپنے ہی ساتھ نہیں رکھتے تب گرو انہیں والدین کی طرح سینے سے لگاتے ہیں،''ان پر خرچ کرتے ہیں مگر وہ چیلہ اگر اس گرو کو چھوڑ کر کسی اور گرو کے پاس چلا جائے تب پہلے والا گرو ہماری رائج رسم کے مطابق نئے گرو سے اس قرض یا رقم کا دعوی کرتا ہے، جو اس کے چیلے پر واجب الادا ہو۔ تو یہ انسانی اسمگلنگ نہیں ہوتی۔‘‘
ثوبیہ خان نے دس سال گرو کے ساتھ گزارے۔ ان کا کہنا تھا کہ گرو کے ڈیرے پر رہ کر تعلیم مکمل کرنا مشکل کام ہے کیونکہ وہاں کا ماحول زرا مختلف ہوتا ہے۔ ڈیرے پر ناچ گانے کی محافل کی وجہ سے وہ کوشش کرتی تھیں کہ اپنے والدین کے پاس رہیں تاکہ تعلیم پر مکمل توجہ دے سکیں۔
’قانون سے ہم جنس پرستی فروغ پا رہی ہے‘
ندیم کشش میک اپ آرٹسٹ ہیں ۔ ندیم کے مطابق میڈیکل کے بغیر کسی کو بھی ٹرانس قرار دینا غیرشرعی بھی ہے اور معاشرتی لحاظ سے بھی نا قابل قبول ہے کیونکہ اس سے ایک بات واضح ہوتی ہے یہ قانون بنایا تو خواجہ سرا کے نام سے گیا ہے مگر اس کے نیچے ہم جنس پرستی کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ ندیم گرو کے ڈیرے کو شیلٹر ہوم نہیں سمجھتے بلکہ ان کا ماننا ہے کہ گرو تحفظ تو دیتا ہے مگر مرضی سے جینے کا حق لے لیتا ہے۔ لیکن گرو پر یہ الزام تسلیم نہیں کرتے کہ وہ اپنے چیلے کو بیچتا یا پیسے وصول کرتا ہے۔ ندیم کا کہنا ہے گرو اور چیلے کا رشتہ اولاد اور والدین ہی کی طرح ہے۔ پالنے کے بعد گرو بھی چاہتا ہے کہ اس کا چیلا اس کے لیے کما کر لائے۔
جنسی شناخت کے حوالے سے ندیم کہتے ہیں کہ بچے کی پیدائش کے بعد ہر بچے کا مکمل میڈیکل چیک اپ کرنے کے بعد ہی بچہ والدین کے حوالے کیا جاتا ہے اور کسی بھی جسمانی یا ذہنی معذوری کو سرٹیفیکیٹ میں لکھا جاتا یے تو پھر خواجہ سرا مرد یا عورت کے طور پر ریجسٹریشن سے پہلے میڈیکل ٹیسٹ پر خواجہ سرا برادری کو اتنا اعتراض کیوں ہے؟