خواندگی کے عالمی دن کے موقع پر ایک نظر پاکستان پر
8 ستمبر 2011سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ملک میں اس وقت شرح خواندگی ستاون فیصد ہے۔ مردوں میں یہ شرح انہتر جبکہ خواتین میں پینتالیس فیصد ہے۔حکومتی ادارہ شماریات کے ملک گیر سروے کے نتائج کے مطابق شہروں میں خواندگی کی شرح چوہتر فیصد جبکہ دیہاتوں میں اڑتالیس فیصد ہے۔
پاکستان میں یونیسکو کے ساتھ سینئیر ایجوکیشن اسپیشلسٹ کے طور پر کام کرنے والے ارشد سعید کا کہنا ہے کہ اگر ان حکومتی اعداد و شمار کو درست تسلیم کر لیا جائے تو اس وقت ملک میں نا خواندہ افراد کی تعداد پانچ کروڑ سے زیادہ بنتی ہے، جن میں زیادہ تر غریب لوگ شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کسی بھی ملک میں خواندگی کے فروغ کا سب سے اہم ذریعہ رسمی پرائمری تعلیم ہے۔ اگر کسی ملک میں خواندگی کی شرح کم ہوتی ہے تو اس کی بنیادی وجہ اس ملک کے بنیادی نظام تعلیم کی ناکا می ہے۔
پاکستان میں پرائمری تعلیم کے حوالے سے ارشد سعید نے بتایا:’’پاکستان میں بھی یہی ہوا ہے کہ جو پرائمری ی سطح پر طلبا ء کی شرح شرکت ہے، وہ کم رہی ہے اور ابھی بھی تقریباً چالیس فیصد بچے جو ہیں، وہ سکولوں میں نہیں ہیں۔ جنہیں سکولوں میں ہونا چاہیے اور جو بچے سکولوں سے باہر رہ جاتے ہیں، وہ مستقبل کے ناخواندہ بن جاتے ہیں۔ اس وقت بھی جو حکومت کے اپنے اعداد و شمار ہیں، ان کے مطابق پرائمری سطح پر شرح شرکت ستاون فیصد ہے۔‘‘
پاکستانی پارلیمنٹ نے اٹھارویں آئینی ترمیم میں پرائمری سطح تک تعلیم کو بنیادی انسانی حق قرار دیتے ہوئے ملک بھر میں پرائمری تعلیم کو لازمی اور مفت کر دیا ہے۔ تاہم ماہرین تعلیم کا کہنا ہے کہ اصل مرحلہ طلبا کو مفت کتابیں اور یونیفارم مہیا کرنے کے اقدام کو عملی جامہ پہنانا ہے۔
معروف ماہر تعلیم پروفیسر اے ایچ نیر کا کہنا ہے کہ پاکستان میں تعلیم کبھی بھی حکومتوں کی ترجیح نہیں رہی اور اس کی سب سے بڑی مثال تعلیم کے شعبے پر قومی مجموعی پیداوار کا دو فیصد سے بھی کم خرچ ہے۔ پروفیسر نیر کے مطابق زمینی حقائق تعلیم کے شعبے میں بہتری کے حکومتی دعووں کے برعکس ہیں۔
اُنہوں نے مزید کہا:''ہر سال حکومت یہ اعلان کرتی ہے کہ ہم اس کو بڑھا دیں گے اور چار فیصد تک لے جائیں گے۔ پالیسیوں میں اعلان کرتی ہے کہ فلاں سال تک ہم اس کو سات فیصد تک لے جائیں گے۔ لیکن ہر سال بہت بے شرمی کے ساتھ اس میں سے پیسے کاٹ کر باقی اخراجات پورے کیے جاتے ہیں تو تعلیم کے اوپر حکومت کی توجہ بھی نہیں ہے اور تعلیم پر معاشرے کی توجہ بھی نہیں ہے۔‘‘
خیال رہے کہ پاکستان ان ممالک میں شامل ہے، جنہوں نے اقوام متحدہ کے ہزاریہ اہداف یعنی ملینیم ڈیویلپمنٹ گولز کے نفاذ کا تہیہ کر رکھا ہے۔ ان اہداف میں دوسرے نمبر پر پرائمری کی سطح پر 2015ء تک بچوں کی شرح اندراج کو سو فیصد بنانا شامل ہے۔ تاہم ارشد سعید کا کہنا ہے کہ پاکستان میں پرائمری کی سطح پر اندراج کی موجودہ ستاون فیصد کی شرح کو دیکھتے ہوئے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان اقوام متحدہ کے ہزاریہ اہداف کو حاحل نہیں کر سکے گا۔ انہوں نے کہا کہ اگر شرح اندراج کی رفتار یہی رہی تو 2015ء تک ساٹھ فیصد بچے ہی پرائمری کی سطح پر سکول جا سکیں گے۔
رپورٹ: شکور رحیم، اسلام آباد
ادارت: امجد علی