1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

خونریز خانہ جنگی کے دو عشروں بعد حکمت یار کی کابل واپسی

عاطف بلوچ، روئٹرز
4 مئی 2017

سابق افغان جنگی سردار حکمت یار نے طالبان کو امن مذاکرات کا حصہ بننے پر زور دیا اور موجود مغربی حمایت یافتہ افغان حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ یہ غیرمؤثر ہے۔ وہ کابل پہنچے تو ان کا شاندار استقبال کیا گیا۔

https://p.dw.com/p/2cOnJ
Former Afghan President Karzai, Afghan President Ghani, Afghan warlord Hekmatyar, former Jihadi leader Abdul Rabb Rasool Sayyaf and Afghanistan Chief Executive Abdullah walk to attend a ceremony in Kabul
تصویر: Reuters/S.Marai

خبر رساں ادارے روئٹرز نے بتایا ہے کہ بدنام ترین سابق جنگی سردار گلبدین حکمت یار نے چار مئی بروز جمعرات کابل میں صدارتی محل میں طالبان باغیوں پر زور دیا ہے کہ باغی تحریک ختم کرتے ہوئے امن عمل کا حصہ بن جائیں۔ تقریبا دو عشروں کی روپوشی کے بعد پہلی مرتبہ عوامی منظر نامے پر کابل پہنچنے والے حکمت یار نے کہا، ’’میرے لیے سب سے اہم معاملہ جنگ کا خاتمہ اور ملک کو بحران سے نکالنا ہے۔‘‘ حکمت یار کو افغان خانہ جنگی کے دور میں کابل پر  شیلنگ کے حوالے سے جانا جاتا ہے اور اسی باعث انہیں ’’کابل کا قصائی‘‘ کا نام بھی دیا جاتا ہے۔

فضول، بے معنی اور غیر مقدس جنگ ختم کریں، حکمت یار

طالبان نے ’آپریشن منصوری‘ کا آغاز کر دیا

حکمت یار پر اقوام متحدہ کی پابندیاں ختم، واپسی کی راہ ہموار

افغان حکومت کے ساتھ گزشتہ برس طے پانی والی ایک ڈیل کے نتیجے میں حکمت یار ایک مرتبہ پھر افغان سیاست میں سرگرم ہو رہے ہیں۔ سیاسی پارٹی حزب اسلامی کے رہنما حکمت یار جب ایک قافلے کی صورت میں جلال آباد سے آج بروز جمعرات کابل پہنچے تو ان کا پرتپاک استقبال کیا گیا۔ صدارتی محل میں افغان صدر اشرف غنی نے حکمت یار کے سیاسی عمل میں شریک ہونے پر خوشی کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ اس پیشرفت سے اندازہ ہوتا ہے کہ افغانستان میں امن عمل کے ذریعے شورش کے ختم ہونے کے قوی امکانات ہیں۔

تاہم حکمت یار نے کہا ہے کہ انہیں ملک کا نیا آئین قبول ہے تاہم اس میں ترامیم کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں پارلیمانی نظام مناسب نہیں ہے۔ انہوں نے غنی اور چیف ایگزیکٹیو عبداللہ عبداللہ کی ثالثی کے نتیجے میں بننے والی قومی متحدہ حکومت کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا۔ حکمت یار کے بقول یہ حکومت کام نہیں کر رہی ہے اور ان دونوں میں کسی ایک کو مستعفی ہو جانا چاہیے۔

موجودہ حکومتی نظام پر تبصرہ کرتےہوئے حکمت یار کا کہنا تھا، ’’ملک کی موجودہ صورتحال میں یہ مناسب نہیں ہے۔‘‘ انہوں نے واضح کیا کہ وہ کوئی عہدہ حاصل نہیں کرنا چاہتے ہیں۔ اس موقع پر انہوں نے بیرون ممالک موجود افغان باشندوں سے اپیل کی کہ وہ وطن واپس آجائیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ بھی اپنی فیملی سمیت ہی افغانستان لوٹے ہیں۔ امریکا نے حکمت یار کے ساتھ اس حکومتی ڈیل کو خیر مقدم کیا ہے۔ واشنگٹن حکومت کے مطابق حکمت یار طالبان کے ساتھ مکالمت میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔

تاہم انسانی حقوق کے سرکردہ کارکنان نے کابل حکومت اور اس بدنام ترین سابق جنگی سردار کے مابین طے پانی والی ڈیل کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ان کارکنان کے مطابق اس طرح کی مثالوں سے استثنا کے کلچر کو تقویت ملے گی اورسیاسی طور پر مضبوط شخصیات کی طرف سے کی جانے والی زیادتیوں پر انہیں جوابدہ بنانا مشکل ہو جائے گا۔