1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

خیبر ایجنسی میں ڈرون حملے، ہلاکتوں کی تعداد ساٹھ ہو گئی

18 دسمبر 2010

پاکستان کے شمال مغربی قبائلی علاقے خیبر میں گزشتہ چوبس گھنٹوں کے دوران مبینہ امریکی ڈرون حملوں کے نتیجے میں ہلاک شدگان کی تعداد 60 ہو گئی ہے۔ ان میں سے پچاس افراد تیراہ وادی میں کئے گئے تین ڈرون حملوں میں مارے گئے۔

https://p.dw.com/p/Qe9j
تصویر: AP

پشاور سے موصولہ اطلاعات کے مطابق خیبر ایجنسی میں مسلسل دوسرے دن ڈرون حملے کئے گئے۔ مقامی ذرائع کے مطابق دونوں حملوں میں ایجنسی کی وادی تیراہ کے دو مختلف دیہاتوں کو نشانہ بنایا گیا۔ سکیورٹی حکام کے مطابق ہلاک شدگان جنگجو ہیں تاہم آزادانہ طور پر اس بات کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔

جمعرات کو کئے گئے پہلے ڈرون حملے میں سات جبکہ جمعہ کو کئے گئے دو حملوں میں 24 افراد کی ہلاکت کی اطلاعات ہیں۔ پشاور میں حکومتی ذرائع کا دعوٰی ہے کہ جمعرات کو مارے جانے والے تمام افراد کالعدم تحریک طالبان کے مقامی عسکریت پسند تھے۔ حکومتی ذرائع نے یہ عندیہ بھی دیا ہے کہ ہلاکتوں کی تعداد بڑھ سکتی ہے۔

Karte von Pakistan mit Swat Region in gelb
پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر واقع قبائلی علاقے کا نقشہتصویر: GFDL / Pahari Sahib

اب سے پہلے تک ڈرون حملوں کو مغربی قبائلی علاقوں وزیرستان، اورکزئی اور باجوڑ ایجنسی تک محدود رکھا گیا تھا۔ خیبر پختونخوا کے صوبائی دارالحکومت پشاورسے متصل قبائلی علاقے کو نشانہ بنانے کی اس کارروائی کو ڈرون حملوں کے دائرہ کار میں توسیع کے مترادف قرار دیا جا رہا ہے۔ واضح رہے کہ نیم خودمختار قبائلی علاقہ سات ایجنسیوں پر مشتمل ہے، خیبر، مومند، باجوڑ، اورکزئی، شمالی وزیرستان، جنوبی وزیرستان اور کرم۔

واشنگٹن انتظامیہ اس نیم خودمختار قبائلی علاقے کو القاعدہ و طالبان کا گڑھ تصور کرتی ہے۔ امریکی صدرباراک اوباما ایک حالیہ خطاب میں پاکستان حکومت پر ایک بار پھر زور دے چکے ہیں کہ عسکریت پسند مخالف کارروائی میں شدت و تیزی لائی جائے۔

رواں سال قبائلی علاقوں پر کئے گئے ڈرون حملوں کی تعداد گزشتہ برس کے مقابلے میں دوگنی ہے۔ جنوری سے اب تک لگ بھگ ایک سو ڈرون حملوں میں چھ سو سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔

محتاط اندازوں کے مطابق اگست 2008ء سے ڈرون حملوں میں 1270 افراد مارے جاچکے ہیں۔ پاکستانی قبائلی علاقوں میں امریکی ڈرون حملوں کے خلاف شدید عوامی اشتعال پایا جاتا ہے۔ ان حملوں میں مارے جانے والوں میں سے بیشتر کی شناخت آزاد ذرائع سے نہیں ہوپاتی۔ یہ نیم خود مختارعلاقہ انٹیلی جنس بلیک ہول کے طور پر جانا جاتا ہے، جہاں صحافیوں اورغیرملکی رضا کاروں کی رسائی انتہائی محدود ہے۔

Logo CIA Central Intelligence Agency
میڈیا اطلاعات کے مطابق ڈرون حملوں کا انتظام امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کے پاس ہےتصویر: AP

دریں اثنا برطانوی حکومت اُن اطلاعات کی چھان بین میں مصروف ہے جس کے مطابق دو برطانوی شدت پسند شمالی وزیرستان میں کئے گئے ایک ڈرون حملے میں مارے گئے تھے۔ اطلاعات کے مطابق ان دو میں سیٹیو نامی برطانوی شہری بھی شامل تھا جو ممکنہ طور پر قبائلی علاقے میں مارا جانے والا پہلا سفید فام برطانوی ہوسکتا ہے۔

اسلام آباد حکومت عوامی سطح پران حملوں کی مذمت کرتی ہے۔ امریکی حکومت عوامی سطح پر ڈرون حملوں کی تصدیق نہیں کرتی البتہ یہ واضح ہے کہ اس خطے میں ڈرون حملوں کی صلاحیت امریکی افواج اور ان کے خفیہ ادارے سی آئی اے کے پاس ہی ہے۔

رپورٹ: شادی خان سیف

ادارت :کشور مصطفٰی/ عاطف بلوچ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں