خیبر پختونخوا اسمبلی کے نو منتخب ارکان نے حلف اٹھا لیا
28 فروری 2024تاخیر سے شروع ہونیوالے اجلاس کی صدارت اسپیکر مشتاق غنی کررہے تھے۔ اجلاس ڈیڑھ گھنٹے سے بھی زیادہ کی تاخیر کا شکار رہا۔ افتتاحی اجلاس کے لیے پی ٹی آئی کے دو ہزار سے زیادہ کارکنوں کو داخلہ پاس جاری کیے گئے تھے جسکی وجہ سے اسمبلی کے مہمانوں کی گیلری میں تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی۔
بعض کارکن پولیس کا حصار توڑ کر اسمبلی میں داخل ہوئے تھے ۔ حلف برداری کے لیے طلب کیے گئے اجلاس میں توڑ پھوڑ کے واقعات بھی سامنے آئے ۔ اسمبلی اجلاس سے قبل نعرہ بازی اس وقت شروع ہوئی جب مسلم لیگ ن کی مخوص نشست پر آنیوالی رکن اسمبلی صوبیہ شاہد نے گھڑی اٹھا کر گھڑی چور کے نعرے لگانا شروع کر دیے۔ اس دوران گیلری میں موجود پی ٹی آئی کے کارکنوں نے نعروں کے جواب میں رکن اسمبلی پرخالی بوتل، جوتے اور لوٹے پھینکے۔ یہ نعرے بازی ایسے وقت میں کی جارہی تھی جب نامزد وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور ایوان میں موجود تھے۔ اس شور شرابے میں ایوان میں اجلاس کی کارروائی تلاوت کلام پاک سے شروع کی گئی۔ اجلاس میں صوبے میں دہشت گردی کے دوران جان بحق ہونیوالے سکیورٹی اہلکاروں اور عام شہریوں کے لیے دعائے مغفرت کی گئی۔ بعد ازاں منتخب 116 ارکان اسمبلی نے اپنے اپنے عہدوں کا حلف لیا۔ بعد ازاں اسمبلی ایجنڈے کے مطابق رجسٹر میں دستخط کیے ۔
اسپیکر خیبر پختونخوا اسمبلی کا ہنگامہ آرائی کے بارے میں موقف
اسپیکر مشتاق احمد غنی کا کہنا تھا، ''اسمبلی ہال کی گنجائش سے زیادہ لوگ آئے تھے دو تہائی سے بھی زیادہ اکثریت پی ٹی آئی کو ملی ہے جبکہ ابھی خواتین کی مخصوص نشستوں کا فیصلہ نہیں ہوا ہے۔ پی ٹی آئی ایک عوامی پارٹی ہے اس لیے آج کے اجلاس میں کارکنوں کا کافی رش رہا جس کے باعث ہمیں تھوڑا سا مسئلہ درپیش آیا اس کے باوجود ارکان کی حلف برداری ہوگئی ہے اور کل دس بجے دوبارہ سیشن شروع ہوگا جس میں اسپیکر اورڈپٹی اسپیکر کاچناؤ کیا جائیگا۔‘‘ انہوں نے کہا کہ پریشر کے باعث اسمبلی ہال میں معمولی چیزوں کو نقصان پہنچا ہے لیکن ایم پی ایز کو کارڈز ایشو ہوئے تھے جس کے باعث ہر ایم پی اے کیساتھ ان کے حامی اسمبلی میں پہنچ گئے۔‘‘
سکیورٹی کی صورتحال
پشاور میں سخت ترین سکیورٹی اقدامات کیے گئے تھے۔ اسمبلی بلڈنگ کی طرف جانے والے راستے عام ٹریفک کے لیے بند رکھے گئے۔ شہر بھر میں ٹریفک جام رہا ۔ مرکزی خیبر روڈ کو ہر قسم کے ٹریفک کے لیے بند کیا گیا تھا پشاورپولیس کے سربراہ کاشف عباسی نے میڈیا کو بتایا کہ،'' تین سو پچاس سے زیادہ پولیس اہلکار و افسران سکیورٹی پر مامور ہیں۔ اُمید ہے کہ صوبائی اسمبلی کا اجلاس پرامن ماحول میں ہوگا۔‘‘ انکا مزید کہنا تھا کہ پولیس کی تمام یونٹس کو سکیورٹی کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔‘‘
نامزد اسپیکر
نامزد اسپیکر بابر سلیم سواتی کا کہنا تھا،'' اسپیکرمنتخب ہونے کے بعد حکومتی اوراپوزیشن ارکان اسمبلی دونوں کو ساتھ لیکر چلیں گے چونکہ وہ بھی اسمبلی ممبر ہیں اس لیے میرا فرض بنے گا کہ اسمبلی کو خوش اسلوبی سے چلاؤں۔‘‘ انکا مزید کہنا تھا،'' پارٹی کے کارکن کی حیثیت سے محنت کی ہے اس لیے پارٹی کا جو بھی فیصلہ ہوتاہے و ہ سر آنکھوں پر اسپیکر کا کام تمام عوامی نمائندوں کو ساتھ لیکر چلنا ہوتا ہے چونکہ انہیں عوام نے منتخب کیا ہے اس لیے میری ترجیح بھی یہی ہوگی۔‘‘
نائب صدر و رکن اسمبلی ظاہر شاہ نے کیا کہا؟
پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ اور سنی اتحاد کے پلیٹ فارم سے منتخب ہونیوالے ارکان کا کہنا تھا کہ وہ انتقامی سیاست پر یقین نہیں رکھتے بلکہ سب کو ساتھ لیکر چلیں گے ۔ پی ٹی آئی کے صوبائی نائب صدر اور رکن اسمبلی ظاہر شاہ طورو نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا،''پختونخوا گذشتہ 40 سال سے بدامنی اور مالی بد حالی کا شکار ہے۔ ہم کوشیش کریں گے کہ صوبے میں امن قائم کریں اور اسکے بعد صوبے میں سرمایہ کاری کو فروغ دیں اور باہر سے اپنے لوگوں کو یہاں سرمایہ کاری کرنے پر راضی کرسکیں۔ انکا مزید کہنا تھا، ''پی ٹی آئی نے انتہائی مشکل دور میں انتخابات میں حصہ لیا۔ ہمارے زیادہ تر کارکنوں کو نشانہ بنایا گیا۔ ہمیں الیکشن کے لیے مہم چلانے نہیں دیا گیا۔ پارٹی سے اُس کا انتخابی نشان چھین لیا گیا لیکن اسکے باوجو بھی عوام نے ہمیں مینڈیٹ دیا۔‘‘
انکا کہنا تھا کہ وفاق کے ساتھ بات چیت کے زریعے مسائل حل کرنے کی کوشیش کریں گے لیکن اگر بات چیت اور مذاکرات سے صوبے کے عوام کو انکا حق نہیں دیا گیا تو وہ احتجاج کا راستہ اختیار کریں گے جو ان کا اور ان کے ساتھیوں کا حق ہے۔ انکا کہنا تھا، ''بجلی اور گیس اس صوبے کی پیداوار ہے پانی اور تمباکو سے حاصل ہونیوالی آمدنی پر اس صوبے کا حق ہے اور یہ حق اگر بات چیت اور مذاکرات سے نہیں ملتا تو ہم اسے چھین کرلیں گے۔‘‘
جمیعت علما اسلام کا بائیکاٹ کا اعلان
اسمبلی اجلاس کے بعد اپوزیشن کے پارلیمانی پارٹی کا اجلاس منعقد ہوا لیکن ایسا لگ رہا ہے کہ اپوزیشن کے آپس میں بھی اختلافات ہیں اور اسکا اندازہ افتتاحی اجلاس کی کارروائی کے بعد سامنے آیا ہے جب جے یو آئی کے رکن اسمبلی اور سابق وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا اکرم خان درانی سے ڈی ڈبلیو نے بات کی تو انکا کہنا تھا، ''ہم اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے انتخابی عمل کا حصہ نہیں بنیں گے۔ جس انداز سے آج اسبملی کارروائی ہوئی اس سے دکھ ہوا۔‘‘ انکا مزید کہنا تھا کہ وہ نو مرتبہ اس اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے لیکن ان کی زندگی میں کبھی بھی ایسا دن نہیں آیا تھا۔ اسمبلی آتے وقت ارکان اسپیکر اور اس ایوان کے تقدس کا خیال رکھتے ہیں لیکن آج جو کچھ ہوا وہ انتہائی قابل افسوس ہے۔ انکا کہنا تھا کہ انکی پارٹی کے مرکزی اجلاس میں فیصلہ کیا جائے گا کہ سڑکوں پر کب نکلنا ہے۔ انکا کہنا تھا کہ جس انداز سے انتخابات میں دھاندلی کروائی گئی اسکی وہ بھر پور مذمت کرتے ہیں۔ اکرم خان درانی کا کہنا تھا کہ پارٹی ملک بھر میں احتجاج کے لیے منصوبہ بندی کر رہی ہے۔
مسلم لیگ ن کا موقف
مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے نو منتخب رکن اسمبلی ڈاکٹر عباد اللہ کا کہنا تھا، ''آج جو کچھ ہوا پہلے کبھی نہیں ہوا۔ اس فتنے نے خاتون ایم پی اے کے ساتھ کیا کیا۔ نہ لیڈر چاہتا ہے کہ صوبہ آگے بڑھا اور نہ یہ لوگ چاہتے ہیں۔‘‘ انکا کہنا تھا کہ صوبے کی وزیر اعلی کے لیے جس کو نامزد کیا سب کو ان کی اوقات کا پتہ ہے ۔ انکا مزید کہنا تھا کہ اپوزیشن جس میں ن لیگ پی پی پی ، اے این پی اور جے یو آئی نے احسان اللہ میاں خیل اسپیکر ہونگے جبکہ ڈپٹی اسپیکر کے لیے ارباب وسیم اپوزیشن کے امیدوار ہونگے ۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے جے یو آئی سے درخواست کی ہے کہ وہ ان کا ساتھ دے۔ ان کے بقول،''مولانا زیرک سیاست دان ہیں۔ وزیر اعلٰی خیبر پختونخوا کے لیے ہشام انعام اللہ خان کا نام ہوگا۔‘‘
پی ٹی آئی کے سابق وزیر شوکت علی یوسفزئی نے اس موقع پر بیان دیتے ہوئے کہا،''نو مئی سے لیکر آج تک پی ٹی آئی کے ساتھ زیادتی کی جارہی ہے اس کے باوجود عوام نے پی ٹی آئی کو مینڈیٹ دیا ہے اب عوام کے اس مینڈیٹ کا احترام کیا جائے۔ وفاق صوبے کو وسائل دیکر صوبے کے عوام کی مشکلات کے حل میں ہمارا ساتھ دے۔‘‘ انکا مزید کہنا تھا کہ پی ٹی آئی انتقامی سیاست پر یقین نہیں رکھتی بلکہ ہم صوبے کے عوام کی خاطر سب کچھ بھلا دے گی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی نے آج کے افتتاحی اجلاس میں جو کچھ کیا اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں اس صوبے کے عوام کی مشکلات میں اضافہ ہوگا۔ مرکز میں ن لیگ کی حکومت ہوگی جو پی ٹی آئی کی مخالف سیاسی جماعت ہے اور پی ٹی آئی کے مرکز کے ساتھ محاذ آرائی کا نقصان شورش زدہ صوبے کے عوام کو ہوگا۔