خیبر پختونخوا: دو مختلف واقعات میں 12 افراد ہلاک
2 ستمبر 2011یہ دونوں واقعات ایک ایسے وقت پر پیش آئے، جب پاکستان میں عید الفطر کا تہوار منایا جا رہا تھا۔ شورش زدہ قبائلی علاقے جنوبی وزیرستان سے متصل ضلع لکی مروت میں سکیورٹی آفیسرز نے ایک چیک پوسٹ پر ایک گاڑی کو رکنے کا اشارہ کیا تاہم جب ڈرائیور نے اِس اشارے کو نظر انداز کر کے آگے بڑھ جانا چاہا تو پولیس نے گاڑی پر فائرنگ کر دی۔ اِس پر گاڑی کے ڈرائیور نے کار بم کا دھماکہ کر دیا، جس سے 40 دکانوں اور 10 مکانات کو نقصان پہنچا۔
مقامی پولیس چیف گل ولی خان نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا:’’ہم نے اب تک ملبے میں سے 5 لاشیں برآمد کی ہیں۔ بمبار نے اپنی کار کو دھماکے سے تباہ کر دیا تھا۔ یہ ایک خود کُش کار بم حملہ تھا۔‘‘ پولیس چیف کے مطابق تمام مرنے والے شہری تھے، مزید یہ کہ 35 افراد زخمی ہوئے ہیں، جن میں 10 پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔
اس واقعے سے پہلے جمعرات کی صبح نامعلوم افراد نے کرم ایجنسی میں گھات لگا کر فائرنگ کرتے ہوئے ایک ہی خاندان کے چار ارکان سمیت سات افراد کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ سکیورٹی حکام کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ فرقہ وارانہ کشیدگی کا شاخسانہ معلوم ہوتا ہے۔
مقامی انتظامیہ کے سربراہ جاوید اللہ خان نے اے ایف پی کو بتایا کہ لوئر کرم کے علاقے مخی زئی میں جس گاڑی کو حملے کا نشانہ بنایا گیا تھا، اُس میں سوار تمام آٹھ افراد کا تعلق شیعہ اقلیت سے تھا۔ اُن کا کہنا تھا:’’مسلح افراد نے سڑک کنارے جھاڑیوں کے پیچھے سے گاڑی پر فائرنگ کی، جس سے سات افراد ہلاک ہو گئے جبکہ آٹھواں شخص زخمی ہو گیا۔
ابھی تک کسی نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ اگرچہ کرم کے علاقے میں سنی اکثریت اور شیعہ اقلیت کے درمیان پہلے بھی جھڑپیں ہوتی رہی ہیں اور جولائی میں ہی اسی طرح کے ایک واقعے میں شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے سات افراد ہلاک ہو گئے تھے تاہم یہ تازہ واقعہ کسی خاندانی جھگڑے کا نتیجہ بھی ہو سکتا ہے۔
رپورٹ: امجد علی
ادارت: ندیم گِل