1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

خیبر پختونخوا صوبائی اسمبلی: خواتین کے لیے کیا بدلا ہے؟

فریداللہ خان، پشاور
20 اپریل 2018

خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلی میں خواتین ارکان کی تعداد بائیس ہے۔ مخصوص نشستوں پر نامزد ہوکر آنے والی ان اراکین کی اکثریت خواتین کے لیے قانون سازی اور ان کے مسائل کے حل کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات سے مطمئن نہیں۔

https://p.dw.com/p/2wLE0
Pakistan Wahlen in Gilgit-Baltistan (Bildergalerie)
تصویر: DW/S. Raheem

جہاں ان خواتین کو مردوں کے مقابلے میں ترقیاتی فنڈز انتہائی کم ملتے ہیں، وہاں انہیں قانون سازی اور خواتین کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے اور بنائے گئے قوانین کو عملی جامہ پہنانے میں بھی مشکلات کا سامنا ہے۔ اب الیکشن کمیشن آف پاکستان نے تمام سیاسی جماعتوں کو عام انتخابات میں خواتین کو پانچ فیصد کوٹہ دینے کا پابند بنایا ہے، جس کے نتیجے میں کئی خواتین نے  عام انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کیا ہے اور بعض تو باقاعدہ انتخابی مہم بھی چلا رہی ہیں۔

ان میں سے کئی خواتین نے اپنی سیاسی جماعتوں کو جنرل نشست پر الیکشن میں حصہ لینے کے لیے درخواست دی ہے۔ خیبر پختونخوا کے قدامت پسند علاقے ضلع دیر کی حمیدہ شاہد کا شمار بھی ان امیدواروں میں ہوتا ہے، جو مخصوص نشست کی بجائے جنرل سیٹ پر انتخابات میں حصہ لینے کے لیے میدان میں اتری ہیں۔

Pakistan Wahlen in Gilgit-Baltistan (Bildergalerie)
تصویر: DW/S. Raheem

حمیدہ شاہد نے ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے بتایا، ’’سیاست میں میرا مق‍صد قطعاﹰ تنخواہ اور مراعات لینا نہیں، نہ ہی میں مخصوص نشست پر امیدوار بن کر یہ مراعات لینا چاہتی ہوں بلکہ میرا مقصد صحیح معنوں میں علاقے کے عوام کے مسائل اور باالخصوص خواتین کے مسائل کے حل کے لیے کام کرنا ہے۔ میں نے بلدیاتی انتخابات کے دوران گھر گھر مہم چلانے کے دوران نہ صرف اپنے علاقے میں ممبر شپ بڑھائی بلکہ ہزاروں خواتین کے ووٹ بنانے میں بھی ان کی مدد کی اور یہی لوگ اب میری طاقت بن گئے ہیں۔‘‘

کے پی کے ماڈل پولیس اسٹیشن، عورتوں کے لیے خواتین پولیس عملہ

حمیدہ شاہد کا کہنا تھا کہ ضلع دیر پختونخوا کا انتہائی پسماندہ علاقہ ہے اور وہاں کی خواتین کو رواج کے نام پر ووٹ کے حق سے محروم رکھا جاتا ہے لیکن اس بار ایسا نہیں ہوگا۔ حمیدہ شاہد کا تعلق پختونخوا کے ضلع دیر کے اس علاقے سے ہے، جہاں آج تک خواتین کو ووٹ ڈالنے کے لیے گھر سے باہر جانے کی اجازت نہیں دی جاتی۔

Pakistan Frauen in Burka
تصویر: AFP/Getty Images/A. Majeed

 ماضی میں خواتین کے انتخابات میں شرکت کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ وہاں کے مقامی عمائدین کرتے رہے ہیں لیکن اب الیکشن ایکٹ 2018ء کے سیکشن نو کے تحت جن حلقوں میں خواتین ووٹرز کی نمائندگی کی شرح دس فیصد سے کم ہو گی، وہاں کے نتائج کالعدم قرار دے دیےجائیں گے۔

 ضلع دیر کے بعد ضلع چترال کا شمار بھی پختونخوا کے دور افتادہ اور پسماندہ علاقوں میں ہوتا ہے۔ وہاں سے صوبائی اسمبلی کی مخصوص نشست پر آنے والی فوزیہ بی بی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’حالیہ اسمبلی نے خواتین کے لیے کئی قوانین بنائے، جن میں انسداد جہیز اور گھریلو تشدد کے ساتھ ساتھ بریسٹ فیڈنگ جیسے قوانین شامل ہیں۔  لیکن جنرل سی‍ٹ پر آنے والے مردوں کے مقابلے میں خواتین کو ترقیاتی فنڈز بہت کم دیے جاتے ہیں۔ اس بار  میں عوام کے ساتھ بھرپور رابطے میں ہوں اور انہیں کی سپورٹ پر جنرل الیکشن میں حصہ لوں گی ۔‘‘

قبائلی علاقوں میں ڈیوٹی پر مامور خواتین پولیس اہلکار

خیبر پختونخوا سمیت پاکستان کے قبائلی علاقوں کی خواتین بھی اب متحرک ہوئیں ہے۔ کرم ایجنسی سے تعلق رکھنے والی سابق بیورو کریٹ علی بیگم نے گزشتہ روز قومی اسمبلی کی جنرل سیٹ پر انتخاب میں حصہ لینے کا اعلان کیا ہے۔

 ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے علی بیگم کا کہنا تھا، ’’مخصوص نشست پر آنا خواتین کے لیے پہلا قدم ہوتا ہے۔ مرد پہلے سے اس فورم میں موجود ہوتے ہیں۔ اب خواتین بھی یہاں سے تجربہ حاصل کر کے انتخابات میں حصہ لے سکتی ہیں۔‘‘

خیبر پختونخوا اسمبلی کی ایک سو چوبیس نشستوں میں سے صرف بائیس نشستیں خواتین کے پاس ہیں لیکن یہ سب خواتین مخصوص نشستوں پر ہی اسمبلی تک پہنچی ہیں۔