قبائلی علاقوں میں ڈیوٹی پر مامور خواتین پولیس اہلکار
23 فروری 2017قبائلی علاقوں میں ناساز گار حالات پر قابو پانے کے لیے جہاں سکیورٹی اداروں نے مختلف مقامات اور گزرگاہوں کی نگرانی سخت کردی تھی وہی قبائلی روایات کا پاس رکھتے ہوئے خواتین کی تلاشی اور نگرانی کسی چیلنج سے کم نہیں تھی۔ اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے انتظامیہ نے گزشتہ برس لیوی فورسز میں خواتین کی بھرتیوں کا اعلان کیا، جس میں درجنوں خواتین نے بھرتی کے لیے اپنے ناموں کا اندراج کروایا لیکن ان تمام کا تعلق اقلیتی مذہبی گھرانوں سے تھا۔
مہک پرویز نے میٹرک تک تعلیم حاصل کی ہے ان کی ابتدا ہی سے یہ خواہش تھی کہ وہ فورسز کا حصہ بنیں۔ قبائلی پولیس میں بھرتی کے وقت وہ دو بچوں کی ماں تھیں۔ تاہم گھر سے آسانی کے ساتھ اجازت ملنے کے بعد مہک بھی ان چار مسیحی خواتین میں شامل ہوئیں، جنہوں نے فاٹا کی تاریخ میں اولین خواتین پولیس اہلکار بننے کا اعزاز حاصل کیا۔
ڈی ڈبلیو سے خصوصی بات چیت کے دوران مہک پرویز کا کہنا تھا کہ یونیفارم پہن کر اپنے ملک کی حفاظت کے لیے اپنے فرائض سرانجام دینے سے ان کو سکون حاصل ہوتا ہے۔ اپنی ابتدائی پیشہ وارانہ تربیت کے بارے میں مہک بتاتی ہیں، ”تربیت سے پہلے سلیکشن کے دوران بھی ہمیں کافی مشکل مرحلوں سے گزارا گیا تھا، لیکن پانچ مہینوں پر مشتمل ٹریننگ کے ابتدائی دن میرے لیے بہت سخت تھے۔‘‘
وہ مزید کہتی ہیں کہ رائفل کا استعمال ان کے لیے نیا اور مشکل کام تھا۔ قبائلی رسم و رواج کے مطابق ان علاقوں میں خواتین برقعہ پہنتی ہیں، لہذا تلاشی کے لیے ان اہلکاروں کی زیادہ تر ایسے علاقوں میں ڈیوٹیاں لگائی جاتی ہیں جہاں پر خواتین کا گزر ہو۔
مہک پرویز کے شوہر غفار مسیح اپنی اہلیہ کے اس فیصلے سے کافی خوش ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اقلیتی برادریوں کو اس قسم کے مواقع فراہم کرنا ایک اچھا شگون ہے۔
ایک سوال کے جواب میں غفار مسیح کا کہنا تھا کہ یہ بھرتیاں صرف اقلیتوں کے لیے نہیں تھیں، اس میں کسی بھی مذہب یا نسل کی قبائلی خاتون شامل ہو سکتی تھیں، صرف مسیحی خواتین کا سامنے آنا ان کے سمجھ سے باہر ہے تاہم اپنی برادری کی کامیابی پر وہ خوش ہیں۔
قبائلی علاقوں میں مقیم مسیحی برادری کے سربراہ ولسن وزیر مسیح کے بقول فاٹا میں قریب پچیس ہزار عیسائی مذہب کے پیروکار آباد ہیں جبکہ خیبر ایجنسی میں ان کی تعداد تقریباﹰ سات ہزار ہے۔ وہ اپنی برادری کی خواتین کی طرف سے سکیورٹی فورسز میں شامل ہونے کے بارے میں بتاتے ہیں، ” یہ ایک فخر کی بات ہے، ہماری بچیاں لیویز میں بھرتی ہوئی ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی ان پر ایک بھاری ذمہ داری عائد ہوئی ہے جس کو اب انہیں ایمانداری کے ساتھ نبھانا ہے۔‘‘
نائیلہ جبار بھی مہک کی طرح تربیت مکمل کرنے کے بعد اب اپنے فرائض سر انجام دے رہی ہیں۔ ابتدائی طور پر ان کو انتظامیہ کی طرف سے لنڈی کوتل میں قائم نادرا آفس پر خواتین کے تلاشی کے لیے تغینات کیا گیا ہے۔ وہ بتاتی ہیں،’’ گوکہ اس وقت لیویز فورس میں خواتین کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے تاہم افسران بالا اور دوسرے ساتھیوں کے مکمل سپورٹ کی وجہ سے ان کو تاحال کسی قسم کی مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔‘‘
نائیلہ کے مطابق علاقے کے تمام لوگ ان کے اس پیشے کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں کیونکہ سکیورٹی فورسز کی موجودگی ہی کی وجہ سے لوگ بے خوف و خطر کاروبار زندگی رواں رکھ سکتے ہیں۔
ان کے بقول، ”میرا آٹھ سالہ بیٹا(امن جبار مسیح) مجھے یونیفارم میں دیکھ کر کہتا ہے کہ وہ بھی بڑا ہوکر آرمی میں بھرتی ہوگا اور دشمن کا مقابلہ کرے گا۔‘‘
لنڈی کوتل کے پیروخیل قبیلے کے ستر سالہ مشر (سربراہ) پیرزادہ محمد امین کا ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ پشتون قبائلی روایات کے مطابق خواتین کا نوکری کرنا یا پھر گھر سے باہر نکلنے کو اچھا نہیں سمجھا جاتا ہے، جبکہ مسیحی برادری میں اس قسم کی کوئی پابندی نہیں ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں ، ”اول تو قبائلی خواتین میں تعلیم کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے، پھر بھی جو بچیاں تعلیم حاصل کر لیتی ہیں تو وہ ڈاکٹر یا استانی بننا پسند کرتی ہیں نہ کہ پولیس میں بھرتی ہونا۔‘‘
پیرزادہ کے مطابق آنے والے وقت میں آگاہی بڑھے گی اور ان بچیوں کو رول ماڈل جانتے ہوئے مزید قبائلی خواتین فورسز میں شامل ہوں گی جس سے ترقی اور خوشحالی کی نئی راہیں کھلیں گی۔
مہک پرویز کے مطابق ان کو اور ان کے خاندان کو اس بات کا بخوبی اندازہ ہے کہ یہ پیشہ خطرے سے خالی نہیں ہے لیکن پھر بھی انہوں نے یہ پیشہ اختیار کیا ہے تاکہ ملک کی خدمت کی جا سکے۔