1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تعليمپاکستان

خیبر پختونخوا کے ہزاروں پرائمری اسکول اساتذہ کا احتجاج

فریداللہ خان، پشاور
7 نومبر 2024

پاکستان میں اس احتجاج میں صوبے بھر سے تقریباﹰ ایک لاکھ اساتذہ حصہ لے رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ جب تک صوبائی حکومت ان کے مطالبات تسلیم نہیں کرتی، صوبے خیبر پختونخوا کے تقریباﹰ چھبیس ہزار پرائمری اسکول بند رہیں گے۔

https://p.dw.com/p/4mkPE
پشاور میں صوبے خیبر پختونخوا کے سرکاری پرائمری اسکولوں کے اساتذہ احتجاج کرتے ہوئے
پشاور میں صوبے خیبر پختونخوا کے سرکاری پرائمری اسکولوں کے اساتذہ احتجاج کرتے ہوئےتصویر: Faridullah Khan/DW

پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کے سرکاری اسکولوں کے اساتذہ نے اپنے مطالبات منوانےکے لیے پشاور میں صوبائی حکومت پر دباؤ بڑھا دیا ہے۔ اس دوران صوبے بھر کے سرکاری اسکولوں کی تالہ بندی کر کے بچوں کو گھر بھیج دیا گیا ہے۔ ان ہزارہا اساتذہ نے پشاور کے جناح پارک کے سامنے اپنا احتجاج شروع کیا۔

اساتذہ تنظیموں نے اعلان کیا ہےکہ جب تک ان کے مطالبات تسلیم نہیں کیے جاتے، تب تک تمام سرکاری پرائمری اسکول بند رہیں گے۔ اس احتجاج میں کل جمعرات اور آج جمعے کے روز صوبے کے دور دراز علاقوں سے بہت سے اساتذہ اپنے سفری سامان سمیت شریک ہوئے، اور ان کے لیے شب بسری کے انتظامات پشاور شہر کے مختلف سرکاری اسکولوں میں کیے گئے۔

تعلیمی بجٹ میں اضافہ: سیاسی جماعتیں اپنے وعدوں سے مُکر گئیں

جمعرات چھ نومبر کے روز صوبائی حکومت نے ان احتجاجی اساتذہ کو شہر کے جناح پارک میں داخل ہونےسے روک دیا۔ اس کے بعد مظاہرین نے سڑکوں پر ہی اپنا احتجاجی کیمپ قائم کر لیا۔ اس احتجاج میں مرد اساتذہ کے ساتھ ساتھ سینکڑوں کی تعداد میں صوبائی پرائمری اسکولوں کی خواتین اساتذہ بھی شریک ہیں۔

پشاور میں جناح پارک کے قریب پرائمری اساتذہ کے احتجاج کی ایک تصویر
اس احتجاج میں صوبے بھر کے مختلف حصوں سے آنے والے پرائمری اساتذہ حصہ لے رہے ہیںتصویر: Faridullah Khan/DW

اساتذہ کی جانب سے سے اسکولوں کی تالہ بندی کے نتیجے میں پورے صوبے میں لاکھوں بچے پڑھائی سے محروم رہے جبکہ چند مقامات پر اساتذہ تنظیموں کے عہدیداروں نے مقامی اسکولوں میں جا کر انہیں زبردستی بند کرایا۔

آل پرائمری ٹیچرز ایسوسی ایشن کا موقف

آل پرائمری ٹیچرز ایسوسی ایشن کے صوبائی صدر عزیز اللہ خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''صوبائی کابینہ نے 17 جنوری 2023ء کو اپنے اجلاس میں اساتذہ کی اپ گریڈیشن کی منظوری دی تھی اور اس پر گزشتہ برس یکم جولائی سے عمل درآمد کا اعلان بھی کیا گیا تھا۔ پشاور میں اب بھی اسی جماعت کی حکومت ہے، جس کی حکومت پچھلے سال جنوری میں تھی، لیکن اب صوبائی حکومت اپنی ہی منظورکردہ پالیسی کو مسترد کر رہی ہے۔‘‘

پاک جرمن تعاون: خیبر پختونخوا کے دو شہروں میں تربیتی مراکز

عزیز اللہ خان کا مزید کہنا تھا کہ صوبائی محکمہ خزانہ کے حکام اس پالیسی پر عمل درآمد میں رکاوٹیں پیدا کر کے حکومت کے لیے امن عامہ کا مسئلہ پیدا کر رہے ہیں۔ انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ صوبائی محکمہ خزانہ پشاور حکومت کو غلط اعداد و شمار مہیا کر رہا ہے کہ اب اساتذہ کی طے شدہ اپ گریڈیشن پر 30 ارب روپے سالانہ لاگت آئے گی۔

حکام نے جناح پارک کے دروازے مقفل کر کے اس کے قریب پولیس بھی تعینات کر دی
حکام نے جناح پارک کے دروازے مقفل کر کے اس کے قریب پولیس بھی تعینات کر دیتصویر: Faridullah Khan/DW

عزیز اللہ خان کا کہنا تھا کہ ان کی تنظیم کے ماہرین کے مطابق اساتذہ کی اپ گریڈیشن پر آٹھ سے نو ارب روپے سالانہ تک کی لاگت آئے گی، جو ''حکومت کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔‘‘ ان کے بقول، ''ہم نے بار بار مذاکرات کیے، لیکن وہ ناکام رہے۔ اب ہم نے مجبوراﹰ صوبے کے 26 ہزار پرائمری اسکول بند کرائے اور ایک لاکھ سے زیادہ اساتذہ کے حقوق کے لیے سڑکوں پر نکلے ہیں۔‘‘

اساتذہ کے مطالبات ہیں کیا؟

خیبر پختونخوا کے ان ہڑتالی پرائمری اساتذہ کا بنیادی مطالبہ ان کی اپ گریڈیشن ہے۔ تاہم ساتھ ہی ان کا ایک مطالبہ یہ بھی ہے کہ پرائمری اسکولوں میں اوسطاﹰ ایک کلاس میں بچوں کی تعداد کی بنیاد پر اساتذہ کی تعیناتی یقینی بنائی جائے اور بچوں پرکتابوں کا بوجھ بھی کم کیا جائے۔

یہ اساتذہ یہ بھی چاہتے ہیں سرکاری اسکولوں کی نجکاری کا فیصلہ واپس لیا جائے اور اساتذہ کو 2022ء کے ریگولرائزیشن ایکٹ کے مطابق جی پی فنڈز بھی دیے جائیں۔ اپ گریڈیشن کے بارے میں احتجاجی اساتذہ کا موقف یہ ہے کہ اس کی منظوری تو گزشتہ حکومت دے چکی ہے اور اب اس پر صرف عمل درآمدکرنا باقی ہے۔

پشاور کا جناح پارک جہاں احتجاجی اساتذہ کو اپنا کیمپ لگانا تھا، مگر جسے مقفل کر دیا گیا
پشاور کا جناح پارک جہاں احتجاجی اساتذہ کو اپنا کیمپ لگانا تھا، مگر جسے مقفل کر دیا گیاتصویر: Faridullah Khan/DW

انتظامیہ کے ساتھ مذاکرات ناکام

سرکاری پرائمری اسکولوں کے اساتذہ کے موجودہ احتجاج سے متعلق فیصلے کی ممکنہ تنسیخ کے لیے اساتذہ تنظیم کے ایک وفد کی صوبائی انتظامیہ کے نمائندوں سے ملاقات بھی ہوئی تھی، تاہم اس ملاقات میں ہونے والی بات چیت بھی ناکام رہی تھی۔ اس مکالمت کی ناکامی کے بعد اساتذہ نے اپنا احتجاج جاری رکھنے کا فیصلہ کیا اور دور دراز علاقوں سے آنے والے احتجاجی اساتذہ کے قیام کے لیے سرکاری اسکولوں میں انتظامات شروع کر دیے۔

انتظامیہ کا احتجاجی اساتذہ کے ساتھ رویہ

اپنے مطالبات منوانے کے لیے احتجاج کرنے والے اساتذہ کے حوالے سے صوبائی محکمہ تعلیم کے سیکرٹری نے پشاور کے تمام اسکولوں کے سربراہان کو ہدایت کی تھی کہ وہ احتجاج کی خاطر پشاور آنے والے اساتذہ کو شب بسری کے لیے سرکاری اسکولوں میں کوئی جگہ نہ دیں۔ اگرکسی بھی اسکول سربراہ نے اس حکم کے برعکس کوئی اقدام کیا، تو صوبائی حکومت اس کے خلاف مقدمہ دائر کر دے گی۔

اساتذہ کی تنظیموں میں سے ایک کا ایک عہدیدار احتجاج کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے
اساتذہ کی تنظیموں میں سے ایک کا ایک عہدیدار احتجاج کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئےتصویر: Faridullah Khan/DW

اب صورت حال یہ ہے کہ صوبائی حکومت کی ہدایت پر احتجاجی اساتذہ کو پشاور کے جناح پارک میں احتجاجی کیمپ لگانے سے منع کرتے ہوئے اس پارک کے دروازوں کو تالے لگا کر پولیس تعینات کی جا چکی ہے۔ اب تک یہ احتجاج مجموعی طور پر پرامن ہے تاہم کسی ناخوشگوار واقعے کو بھی خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔

اسی دوران ٹیچرز ایسوسی ایشن کے سیکرٹری جنرل محمد ندیم جان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہم نے مئیر پشاور سے ملاقات کر کے جناح پارک میں پرامن احتجاج کرنے کے لیے اجازت مانگی تھی۔ مگر میئر کی طرف سے اجازت کے بعد جناح پارک کے دروازے مقفل کرنا اساتذہ کو پرتشدد مظاہروں پر اکسانے کے مترادف ہے۔‘‘

محمد ندیم جان کے بقول، ''اساتذہ اپنا احتجاج جاری رکھے ہوئے ہیں اور کسی بھی صورت اپنے مطالبات سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔‘‘

ایک غیر معمولی مدرسہ جہاں کے اساتذہ اور طلبہ سب نابینا ہیں