'دائیں بازو کی انتہا پسندی سے جرمن معیشت کو ممکنہ خطرہ'
27 جنوری 2024ڈوئچے بینک کے چیف ایگزیکیٹو آفیسر کرسچن سیوئنگ نے جرمنی میں بڑھتی ہوئی دائیں بازو کی انتہا پسندی کے پیش نظر پیدا ہونے والے خطرات کے بارے میں خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ رویے ملکی معیشت کے لیے بھی خطرہ ہو سکتے ہے۔
سیوئنگ، جو 'ایسوسی ایشن آف جرمن بینکس' کے صدر بھی ہیں، نے یہ بیان جرمن اخبار 'ویلٹ ام زونٹاگ' کو ایک انٹرویو کے دوران دیا۔
ہفتے کو شائع ہونے والے اس انٹرویو میں ان کا کہنا تھا، "نفرت اور نسل پرستی کے لیے ہمارے ملک میں کوئی جگہ نہیں ہونی چاہیے۔"
سیوئنگ نے مزید کہا کہ اگر اس مسئلے کو اقتصادی نقطہ نظر سے دیکھا جائے، تو اس طرح کے رویوں کے خلاف کھڑے ہونے کی متعدد وجوہات ملتی ہیں۔
انہوں نے اس بات کی نشاندہی بھی کہ جرمنی کی "قابل اعتماد جمہوری اقدار اور ڈھانچے" کی وجہ سے غیر ملکی سرمایہ کار بھی یہاں کاروبار کر رہے ہیں، لیکن وہ اب ہی سے یہ سوال بھی اٹھا رہے ہیں کہ آیا وہ ان جمہوری اقدار پر طویل مدت کے لیے اعتماد کر سکتے ہیں۔
سیوئنگ کا مزید کہنا تھا کہ اگر جرمنی غیر ملکی ہنر مند افراد کے لیے ایک "پرکشش مقام" ہے، تو دائیں بازو کی انتہا پسندی کے باعث یہاں ہنر مند افراد کی کمی کا سامنا بھی ہو سکتا ہے۔
ہنرمند افراد کی کمی، جرمن اداروں کو مشکلات کا سامنا
انہوں نے جرمنی کے یورپی یونین سے علحیدہ ہونے کے خیال کو "انتہائی خطرناک" اور "اقتصادی خرافات" قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس پر سمجھداری کے ساتھ نہیں سوچا گیا ہے۔
سیوئنگ نے اس خیال کو "ڈیگزٹ" کا نام دیا اور اس کا موازنہ برطانیہ کے یورپی یونین چھوڑنے کے عمل "بریگزٹ" سے کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ بریگزٹ کے برطانوی معیشت پر منفی اثرات صاف ظاہر ہیں اور بین الاقوامی سطح پر پورپ جرمنی کا "سب سے بڑا ٹرمپ کارڈ ہے"۔
سوئنگ کا "ڈیگزٹ" کے حوالے سے یہ موقف دائیں بازو کی جرمن سیاسی جماعت 'آلٹرنیٹو فار جرمنی' کی لیڈر ایلس وائڈل کے ایک بیان کے بعد سامنے آیا ہے۔ اس بیان میں وائڈل نے کہا تھا کہ اگر ان کی جماعت حکومت میں آتی ہے تو وہ یورپی یونین میں اصلاحات اور اس کے رکن ممالک کو دوبارہ خود مختار بنانے کی کوشش کرے گی۔ انہوں نے مزید کہا تھا کہ ان کوششوں کا مطلوبہ نتیجہ نہیں نکلنے کی صورت میں جرمنی کے یورپی یونین میں رہنے کے کے حوالے سے ایک ریفرنڈم ہونا چاہیے، جیسے برطانیہ میں 2016ء میں ہوا تھا۔
م ا/ رب (ڈی پی اے)